انسان اب حقیقت سے نا آشنا کیوں ؟
ماضی میں انسان اگر چہ اقتصادی اور معاشی طور خود کفیل نہیں تھا لیکن ایک دوسرے کے سہارے جیاکرتے تھے ،دکھ درداور خوشیوں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے تھے مذہبی رواداری، مساوات اور بھائی چارہ ہر انسان میں چاہیے امیر تھا یا غریب کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اتھا ۔ایک ساتھ روتے تھے اور ایک ساتھ مسکراتے تھے تب وہ لوگ غریب تھے لیکن پُر سکون اور فرحت بخش زندگی گذارتے تھے غریب کی وہ تمام اڑچنیں اور سختیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر بانٹے تھے اور ایک دوسرے کو دلاسہ دیکر زندگی کے مزے لیا کرتے تھے پھر انسان نے اپنی نظریں دور کی منزلوں کی طرف دوڑائے اور وہ غربت کی تمام آزمائشوں سے تنگ آکر ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے لگا لیکن اس دوڑ میں انسان اصلی وجود و حقائق سے دور ہوتے گیا یہاں تک کہ اشرف المخلوقات ہو کر بھی معاشی حیوان بن بیٹھا ۔وہ اپنی زندگی کو آرام و سکون کا رنگ دینے اور تعمیر و ترقی کو منظم بنانے کیلئے بے لگام د وڑ نے لگا اس دوڑ میں حضرت انسان ترقی اور اقتصادی طور خود کفیل تو بنا لیکن وہ تمام خوبیاں اور خصلتیں کھونے لگا جو اس کے فطرت سے مر بی تھے ۔ دنیا کے رنگوں میں رنگنے لگا اور جدید مشینری کا استعمال اگر چہ اسکے لئے کار آمد ثابت ہوتا رہا کیونکہ انسان جو کام مہینوں میں پورا کرتا تھا وہ منٹوں اور گھنٹو ں میں طے ہونے لگا ۔ واقعی ان جدید ایجادات سے انسان کو سہولیتیں میسر ہونے لگی اور ترقی کی لہر سے آگے بڑھنے لگا لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان سکون ہی کھونے لگا ۔ اس کے بنیادی محرکات یہ ہیں کہ انسان نے مذہب کے اصولو ں کی پاسداری اور اخلاقی اقدارکی پاسداری سے اپنا توجہ ہٹا کر بے راہ روی، منشیات کے دھندوں اور بے حیائی کے طور طریقوں میں داخل ہوگیا۔ انسانیت کے عظیم منصب کو تبدیل کر کے حیوانی خصائل کو فروغ دینے لگا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان مالی و اقتصادی طور خود کفیل ہونے کے باوجود بھی زندگی سے تنگ آچُکا ہے حالانکہ آج کے اس دور میں کم و قلیل لوگ ایسے ہیں جو غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن جو انسان دھوکہ دہی، فریب کاری ، رشوت خوری، ناجائز منافع خوری اور لوٹ کھسوٹ کے ذریعے دولت کماتے ہیں وہ غریبوں ، محتاجوں اور مفلوک الحال لوگوں کو پائوں تلے روندنے کی کوشش میں لگے ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگ غریب مزدورں سے کام لے کر اپنی اقتصادی حالت بہتر بنا سکتے ہیں اور یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر ایک شخص ایک دوسرے کا معاوِن و مددگار ہوتا ہے لیکن جو شاہی گدیوں پر برا جماں ہوتے ہیں اُن کی آنکھوں پر تعصب ، ضد اور تکبر کی عینک لٹکی رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ حقیقت سے بھی نا آشنا ہوجاتے ہیں ٹھیک ہے کہ جو انسان ترقی کی دوڈ میں غلط طریقے سے پیسے بٹور کر آگے بڑھتے ہیں وہ ہر اعتبار سے پریشان اور پیشمان ہوتے ہیں ۔ اگر آج بھی انسان مذہبی اصولوں اور اخلاقی اقدار کی پاسداری کرے تو عین ممکن ہے کہ انسان ترقی کے ساتھ ساتھ پُر امن اور خوشحال زندگی گذارسکتا ہے۔ اسکے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ انسان خود غرضی، لالچ،دُھوکہ بازی اور فریب کاری سے اپنے آپ کو دور رہ کر انسانوں کی طرح زندگی گذاریں اس ترقی یافتہ دور میں انسان کو اپنے حقیقی وجود کی طرف اپنی نظریں مرکوز کرنی لازمی ہے ۔ تاکہ انسان اپنے نفس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی خیر خواہ اور ہمدرد ثابت ہوسکے تو ضرور وہ انسان زندگی کے غموں سے نکل کر خوشحالی کی طرف گامز ن ہوجائے گا ۔
Comments are closed.