اقتدار کی نیلم پری کھوجانے کے بعد پھر وہی بول

ناظم نذیر

سابقہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی 13جولائی کو مزار شہداء پر حاضری دینے کے بعد نامہ نگاروں کے سامنے دئے گئے بیان سے سیاسی گلیاروں میں ہل چل مچ گئی ۔ قومی سطح کی میڈیا چینلوں اور سماجی ویب سائٹوں پر بحث ومباحثے شروع ہوئے ۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ’’ گھر میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں ان کو سلجھایاجائے گا۔ ان کی پارٹی مستحکم ہے اگر دلی نے جوڑ تو ڑ کی کوشش کی تو سنہ87کی طرح یہاں صلاح الدین اور یاسین ملک پیدا ہونگے اور اس کے نتائج خطرناک سامنے آئیں گے ‘‘ ان کا بیان منظر عام پر آنے کے بعد بی جے پی نے اس پر سخت برہمی کااظہار کیا کہ’’ محبوبہ مفتی نے صلاح الدین اور یاسین ملک کا نام کیوں بطور مثال پیش کیا وہ قومی دشمن ہیں اور ان کے بیان کو ایک بڑی دھمکی تصورکیا ‘‘ جبکہ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے اس بیان پر ٹیویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’محبوبہ مفتی 87کی طرف جائے بغیر اپنے دور اقتدار کا محاسبہ کریں کہ عسکریت پسندی کے گراف میں کتنااضافہ ہوا؟‘‘اسی طرح باقی سیاسی جماعتوں کے لیڈران نے بھی اس بیان پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔جبکہ پی ڈی پی کے ناراض سینئر لیڈران نے بغیر کسی تعطل وتاخیر کے سرینگر میں پریس کانفرنس طلب کی اور پُرہجوم پریس کانفرنس کے دوران محبوبہ مفتی کے بیان کو حیرت انگیز قرار دیا اور کہا کہ’’ اس طرح کا بیان پی ڈی پی لیڈران کے لئے وبال جان بن سکتا ہے ‘‘یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ سابقہ وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی این سی اور کانگریس کی مخلوط سرکار کے دوران بی جے پی کو ہدف تنقید کانشانہ بناتے ہوئے اس کو فرقہ پرست جماعت کہلاتی تھی اور دلی کے حکم ناموں اور کالے قوانین کی آڑ میں لوگوں کے حقوق سلب کرنے پر اپنا احتجاج درج کرتی تھیں ۔مخلوط حکومت کی ناکامیوں کو اچھال کر لوگوں کے دل جتنے کی کوشش کررہی تھیں۔لیکن جب لوگوں نے’’ تبدیلی‘‘ کے نام پرپی ڈی پی کو ووٹ و سپورٹ دیا ۔تو پی ڈی پی کے لیڈران نے لوگوں کی توقعات سے ہٹ کر بی جے پی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے حکومت بنائی اور ایجنڈا آف الائنس کو مفاد عامہ کیلئے ایک سنگ میل قرار دیکر لوگوںکی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کرکے ساڑھے تین سال اقتدار کی گدیوں پر براجماں رہے ۔اس دوران لوگوں کے ساتھ کتنے دلدوز واقعات پیش آئے جس سے درد دل رکھنے والے انسانوں کے رونگھٹے کھڑا ہوتے تھے سے نظریں چراکر بیان بازی تک محدود رکھ کر اپنی کرسی کی رکھوالی کرتے رہے اور بی جے پی کو خوش کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام اٹھاتے رہے لیکن جب دلی سے فرمان جاری ہوا تو بی جے پی نے پی ڈی پی کے ساتھ الائنس بغیر کسی تاخیرکے توڑ دیا ۔جس سے سیاسی حلقوں میںایک نئی ہوا چلی اور کچھ دنوں کے بعد باضابطہ طور گورنر راج نافذ ہوا جبکہ پی ڈی پی میں اندرونی خلفشار بھی ہوا اور چند لیڈران ناراض ہوکر میڈ یا کے سامنے آکر بڑھاس نکالنے پر اتر آئے ۔وہ تب چپ تھے جب اقتدار تھا لیکن اقتدار کھوجانے کے بعد وہ اپنی شکایتوں کو سامنے لانے کیلئے متحرک ہوئے ۔اسی طرح سے محبوبہ مفتی اب دلی اور بی جے پی کو سازش رچانے کا الزام عائد کرنے لگی لیکن جب اقتدار میں تھی تو نریندر مودی اور دیگر بھاجپا لیڈران کے گیت گارہی تھیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اقتدار میں ہوتے ہوئے ان سیاسی لیڈران کے زبانوں پر حقائق سامنے لانے کیلئے تالے پڑ جاتے ہیں کیونکہ اگر وہ سچ بولیں تو ان کی کرسی رخصت ہوگی ۔اب وہ صرف ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنے دن نکالتے تھے لیکن بالآخر یہ خاموشی بھی کسی کام نہ آئی بلکہ ان کو اپنے لئے بھی دھوکہ ہی ثابت ہوئی ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ زبان درازی اور بیان بازی کے بجائے موجودہ حالات پر نظریں مرکوز کی جائیں ۔تاکہ امن و شانتی قائم ہوسکے ۔

Comments are closed.