افسپاءکا استعمال، بھارت کےلئے مہنگا سودا:سوز

 "سرینگر: کانگریس کے سینئرلیڈر اور سابق مرکزی وزیر کا کہنا ہے کہ میں 21 اکتوبر2018ءکو کالے قانون افسپاءکے تحت فورسز کے ہاتھوں جبر و قہر کے درمیان کولگام میں ہوئی معصوم افراد کی ہلاکتو ں پر گہرے صدمے کا اظہار کرتا ہوں اور اس کالے قانون کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔

پروفیسر سیف الدین سوز کا کہنا ہے کہ آج صبح مجھے پچھلے زمانے کی یاد آئی اور مجھے بہت دکھ پہنچا کہ افسپاءجیسا قانون ابھی ریاست میں برقرار ہے جس کو ہندوستان کی سول سوسائٹی کے کئی سرکردہ افراد نے کئی مواقعہ پر مذمت کرتے ہوئے رد کیا تھا۔ مجھے 4 اکتوبر1990ئ کی یاد تازہ ہو گئی جب میں نے لوک سبھا کے اجلاس میں سب ممبران کے سامنے افسپاءسے متعلق آرڈر کو پھاڑ ڈالا اور اس کے بعد وہاں سے واک آوٹ کیا تھا ۔ یہ بھی یاد کہ اس واک آوٹ میں میرے ساتھ مسلم لیگ کے تین ممبران مرحوم سلیمان سیٹھ ، مرحوم بنات والا اور عبداصمد شامل تھے!اسی دوران مجھے یہ بھی خیال آیا کہ میں ہندوستان کی سول سوسائٹی کے کچھ دردمند افراد کے ساتھ اپنا درد بانٹوں اور میں نے کئی اور لوگوں کے علاوہ جنرل ڈی ایس ہوڈا اور یشونت سنہا سے ٹیلی فون پر بات کی۔ مجھے یہ محسوس کرنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ دونوں درد مند لوگ کشمیر کے حالات پر کفِ افسوس مل رہے تھے ۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہ واقعی وحشت ناک قانون ہے اور اس کی جگہ کوئی اور قانون ہونا چاہئے ۔ گویا میں اور وہ دونوں اس کالے قانون پر ایک طرح سوچتے تھے!میری نظر میں افسپاءایک ایسا سیاہ قانون ہے جس نے کشمیریوں کے دلوں اور دماغوں میں صرف غصے اور ناراضگی کو جن نہیں دیا ہے بلکہ روز بروز اس غصے میں اضافہ کیا ہے۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ پی ۔ چدمبرم نے بھارت کی سول سوسائٹی اور اُس سسٹم کو جو اقتدار میں تھا ، یہ بات اچھی طرح سمجھائی تھی کہ اس غلط قانون کے ذریعے کشمیری لوگ ناراض ہوتے جا رہے ہیں اور ا س لئے اس کو منسوخ کرنا چاہئے!مگر افسوس کہ اُس وقت کے برسراقتدار قیادت نے وہ بات نہ ماننے کی خوفناک غلطی کی ۔اب مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت ہند کو کشمیرمیں افسپاءجیسے بہیمانہ قانون کے تحت فورسز کے ذریعے جاری قتل وغارت کےلئے بڑا خمیازہ اٹھانا پڑے گا۔وزیر داخلہ، راج ناتھ سنگھ کو اس حقیقت کو جان لینا چاہئے کہ اگر افسپا ءجیسا قانون ریاست میں نافذ ہے ،تو ایس او پی (Standard Operating Procedures) جیسا دوسرا قانون کہاں ہے؟ میں سوچتا ہوں کہ اُن کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک ممتاز جرمن فلاسفر ولیلم جوزف شولنگ نے زور دیکر کہا تھا کہ ، ‘سب سے زیادہ جو چیز لوگ محسوس کرتے ہیں وہ نا انصافی ہوتی ہے اور یہی نا انصافی اِن کی نفسیات کا مکمل حصہ ہو جاتی ہے!یہ حقیقت تو نقش بردیوار ہے کہ آج نہیں تو کل حکومت ہند کو اس کالے قانون کے تحت ہونے والی زیادتیوں کےلئے ایک بڑا خمیازہ اٹھانا پڑےگا۔“

Comments are closed.