اس قتل ناحق کا الزام کس پر؟

حال ہی میں شوشل میڈیا کی وساطت سے ایک دلدوز منظر سامنے آیاجسکو دیکھ کر اورسُن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے، آنکھوں سے آنسوں جاری ہوتے ہیں اور بے اختیار زبان حال سے ایک سلیم و فطرت انسان آسمان کی طرف نظریں اُٹھا کر، بے بسی اور بے کسی کی حالت میں اپنے رب سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اے بار الہیٰ اپنی طرف اب انسان کے دل میں مادہ رحمت ڈال دے تاکہ اس مخدوم کائنات اور اشرف المخلوقات کے ہاتھوں کسی کی خوشیاں نہ چھن جائیں، کسی معصوم کا قتل نہ ہو، کسی ماں کی گود سونی نہ ہو، کسی باپ کا کلیجہ نہ کٹ جائے ۔ انسان کا انسان کے کام آنا، اُس کے دکھ درد میں اس کا سہارا بننا دنیا کے تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات کا حصہ ہے اور اسلام نے اس پر اتنا زور دیا ہے کہ ایمان کے بعد انسانی ہمدردی کو عبادات پر مقدم ٹھہرایا ہے لیکن اسلامی تعلیمات سے نابلد اور ناآشنا لوگ اپنی ذات کی پرستش کے سوا کچھ نہیں جانتے ہیں، جسکا معبود اُس کی ذات بن جائے وہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیتا ہے پھر اس کے سامنے انسان اور انسانیت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے۔کپواڑہ کلاروس سے میاں بیوی اس سرد موسم اور برفانی طوفان سے یہ آس لے کر گھر سے نکلتے ہیں کہ نو مہینوں کی سختیوں کے بعد سرینگر لل دید اسپتال میں اُن کا بچہ اس دنیا میں صحیح سلامت آنکھیں کھولے گا ، اُن کے گھر میں خوشیاں لے کر آئے گا، نہ جانے کتنے خواب لے کر یہ میاں بیوی گھر سے نکلے ہوں گے لیکن ان کے سارے خواب اُس وقت ٹوٹ جاتے ہیں جس وقت اُنکو اسپتال (اُن کےکہنے مطابق رات کے آٹھ بجے) سے نکلنے کا حکم دیا جاتا ہے۔آخر حکم صادر کرنے والے ڈاکٹر صاحب نے یہ کیوں نہیں سوچا کہ اتنی دور سے آنے والے اس سرد موسم اور برفباری میں اس وقت کہاں جائیں گے؟ ایک طرف سرد موسم اور دوسری طرف برف باری بھی ہورہی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان بےچارے میاں بیوی کو گاڈی نہیں مل سکتی، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ رات کو انہیں رہنے کی جگہ نہیں مل سکتی۔پھر کیوں ایک ڈاکٹر تحکمانہ انداز میں ان بے چاروں کو اسپتال سے نکلنے کا حکم دیتا ہے؟ اس حرکت کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کیونکہ یہ ایک انسانیت سوز حرکت ہے۔ بے چارے میاں بیوی اور ان کے ہمراہ کچھ اور رشتہ دار اسپتال سے نکلالے جاتے ہیں اور آٹو رکشہ میں بیمنہ(Bimina) پہنچتے ہیں اور اسی دوران عورت کو درد ہوتا ہے اور وہ رات کے اندھرے میں جان لیوا سردی میں بچے کو جنم دیتی ہے۔اُس نے مردے بچے کو جنم دیا یا زندہ بچے کو، سوال یہ نہیں ہے بلکہ سوال یہ ہے کہ آدم و ہواکی بیٹی کو رستے پر بچے کو جنم دینے پر مجبور کس نے کیا؟ سوال یہ ہے کہ شرم و حیا کی پاسداری کرنے والی بیٹی کو راستے پر بچے کو جنم دینے پر مجبور کس نے کیا؟ سوال یہ ہے کہ جس نفس کے قدموں کے نیچے جنت ہے اُس کو سڑک پر اس حالت میں کس نے لایا کھڑا کیا؟ اور پھر ہمیں وہ قیامت صغریٰ دیکھنے کو ملتی ہے کہ ایک باپ کاغذ کے ڈبے میں اپنے بچے کی لاش لیے گھومتا ہے۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سانحہ پر آسمان نے رویا ہوگا، ملائیکہ روے ہوگے، کائنات کی ہر شیے نے اپنا سینہ پیٹا ہوگا کیونکہ یہ سانحہ ہی اتنا بڑا تھا کہ اس پر آنسوں بہائے بغیر کوئی اور چارہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس باپ کی گفتگو سے جو اس نے میڈیا کے ساتھ کی اندازہ ہوتا ہے کہ کس قدر تکلیف محسوس کرتے ہیں، اندیشہ ہے کہ اس کے دکھ اور درد سے اوپر سے آسمان نہ پھٹ جائے ۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد ہمارے اسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹر صاحبان مریضوں کے ساتھ اپنے روئیے میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی لائیں گے ؟ اس واقعہ کے رونما ہونے کے بعد اس طبقے کے لوگوں کو کوئی سبق حاصل ہوگا۔اگر اس سے بھی ہمارا یہ معزز طبقہ کوئی سبق حاصل نہ کرسکا تو یہ ان کی بدنصیبی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ سبق اور نصیحت تو عقل والے ہی حاصل کرتے ہیں ۔
لل دید اسپتال کے انتظامیہ کو مزکورہ ڈاکٹر کے خلاف سخت سے سخت کاروائی عمل میں لانی چاہیے اور پوری قوم کے سامنے متاثرین سے معافی مانگنی چاہیے۔ آج پوری ملت اس واقعہ پر شرم سار ہے، شرم سے ہمارے سر جھک گئے ہیں اور پوری قوم اسپتال کے انتظامیہ اور دیگر ریاستی ذمہ داروں سے یہ سوال پوچھتی ہے کہ۔۔۔۔۔اس قتل ناحق کا الزام کس پر؟؟؟؟؟

Comments are closed.