آن لائن درس وتدریس وادی کشمیر میں بری طرح سے ناکام ہزاروں کی تعداد میں طلاب درس وتدریس سے محروم
آن لائن تعلیم کے بجائے وادی کے اطراف واکناف میں اسکولوں کالجوں میں قوائد وضوابط کے تحت درس وتدریس کی اشد ضرورت: والدین
سرینگر/یکم اگست: کشمیر وادی میں آن لائن درس وتدریس کاسلسلہ بری طرح سے ناکام ہورہاہے دور دراز علاقوں میں بہتر مواصلاتی نظام کی عدم دستیابی اور غریب طلاب میںفور جی سلفون نہ ہونے سے ایسے ہزاروں طلاب آن لائن درس وتدریس سے محروم جبکہ انتظامیہ کی جانب سے درس وتدریس اسکولوں کالجوں میں شروع کرانے کے سلسلے میںفی الحال کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے اور سرکار نے ایک دفعہ پھراس بات کا عندیہ دیاہے کہ اسکولوں کالجوں میں درس وتدریس 15اگست تک معطل رہے گا اسکولوں کالجوں کے بندرہنے سے نہ صرف طلاب جسمانی نشود نماء سے محروم ہوتے جارہے ہیں بلکہ ذہنی دباؤ بھی گھروں میں رہ کرمحسوس کررہے ہے اورطلا ب کے مسلسل گھروںمیںقید رہنے سے اب ان کے والدین بھی پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے ہیں ۔مختلف مکتب ہائی فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کے مطابق اگر چہ اب پوری طرح سے ان لاک ڈاون کااعلان کیاگیاہے بازاروں کوکھولنے کی پوری طرح سے اجازت ہے سیاح اور سیلانی صحت افزاء مقامات کا رُخ کررہے ہے سرکاری اداروں میں کام کاج معمول کے مطابق ہورہاہے پبلک ٹرانسپورٹ بحال ہوا ہے سرکاری اسپتالوں کے او پی ڈی کھل گئے ہے توایسی کیاوجوہات ہے کہ اسکولوں کالجوں میں درس وتدریس بحال نہ کیاجاسکے اگر ویکسنیشن کاہی معاملہ ہے تو یہ سرکار کے پاس اتناکوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ اسکولوں کالجوں میں زیرتعلیم طلاب کوویکسنیشن کے دائرے میں نہیں لایاجاساکتاہے ۔اے پی آئی کے مطابق وادی کشمیرمیں تعلیمی نظام بری طرح سے متاثر ہوا ہے ۔نونہالوں کی ایک بڑی تعداد اب ذہنی تناؤ میں مبتلاہوتی جارہی ہیں ایک طرف انہیںاسکولوں کالجوں کادباؤ ہے کہ وہ آن لائن درس وتدریس حاصل کرے اور جب آن لائن درس وتدریس کی طلاب کوشش کررہے ہے تو ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہاہے کہ اساتذہ آن لائن بہتر طریقے سے پڑھاسکتے ہے او رنہ ہی طلاب کوآن لائن ان کی بولی سمجھ آ رہی ہے آن لائن تعلیم یاایک پہلو یہ پہلے اور دوسری جانب سرکاری اور پرائیویٹ اسکولوں میں غریب طلاب کی ایک بہت بڑی تعداد ہے ہرایک طالب علم کے گھر میں ایک سے زیادہ فور جی سلفون دستیاب نہیں ہے جس طالب علم کے والدکوپیٹ کی آگ بجھانے کے لئے مصائب ومشکلات سے گزر ناپڑے وہ اپنے بچے کے لئے فور جی فون لائے گا کہا ہے اور اگرایسے کنبوں میں ایک سے زیادہ بچے ہوجنہیں فور جی سل فون کی ضرورت ہے تووہ کہاں سے تعلیم حاصل کرینگے ان کامستقبل کس طرح سے تباہ وبرباہورہاہے کیا ا ن کے مستقبل پرسوالیہ نشان نہیں لگ رہاہے ہرماہ انتظامیہ اعلان کرتی ہے کہ اب بھی درس وتدریس نہیں ہوا گاآن لائن تعلیم کاسلسلہ جاری رہے گا کیامحکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران نے آنکھوں پرپڑی باندھی ہے انہیں وہ غریب طلاب نظرنہیں ا ٓرہے ہیں جن کے والد قیمتی فون نہیںخریدسکتے ہے او رنہ ہی اپنے بچوں کودے سکتے ہے کیادور دراز علاقوں میں بالعموم اور وادی کشمیرمیں بالخصوص اگرسنجیدگی کے ساتھ کمنٹی کلاسوں کااہتمام کیاجائے تا کہ وہ طلاب تعلیم کے نور سے آراستہ ہوسکے جونہ توٹیوشن جاسکتے ہے اور نہ ہی جن کے پاس ان لائن درس وتدریس کرنے کی سہولیات موجود ہو۔وادی کشمیرمیںآن لائن درس وتدریس کایہ سلسلہ بری طرح سے ناکام ثابت ہوا ہے اور محکمہ تعلیم کواس کااعترف کرنا چاہئے دس لاکھ کے قریب طلاب میں سے زیادہ سے زیادہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب طلاب اس حٰیثیت میں ہے کہ وہ سالانہ امتحان میں بیٹھ سکے اور سات سے آٹھ لاکھ کے قریب طلاب نے نہ تو سیلبس مکمل کیاہے نہ ان کے پلے کچھ پڑا ہے اگر سرکار نے کروناوائرس وبائی بیماری کے تیور نرم ہونے کے بعد اَن لاک ڈاون کااعلان کیاہے سر کاری اسپتالوں کے او پی ڈی کھول دیئے درگاہوں خانقاہوں مسجدوں مندروں گردواروں میں عقیدت مندو ںکو اپنے اپنے طریقے سے عبادت کرنے کی اجازت دی سنڈے مارکیٹ سج رہے ہے بازار کھل گئے ہیں مسافر بردار گاڑیوں میں مسافروں کوبھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسا جا رہاہے سرکاری شفاخانوں کے او پی ڈی میں لوگوں کاسیلاب اُمڑ پڑتاہے اس وقت نہ توکروناوائرس کی بیماری انتظامیہ کے ذہن میں رہتی ہے او رنہ ہی سرکار قوائدوضوابط پرعمل کرانے کے لئے ان جگہوں کارُخ کرنے والوں کومجبور کررہی ہے ۔صحت افزاء مقامات میں کیاگل کھلائے جارہے ہے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے اور اگرپابند عائد کرنی ہے تو اسکولوںاورکالجوں پرگھروں میں رہنے سے طلاب کی جسمانی نشود نماء خراب ہورہی ہے اور اب وہ ذہنی دباؤ بھی محسوس کررہے ہیں ایک طرف طلاب پروالدین دباؤ ڈال رہے ہیںاور دوسری جانب انہیں اپنامستقبل مخدوش دکھائی دے رہاہے اس صورتحال نے انہیں کہی کابھی نہیں رکھااور ان کے والدین بھی پریشانیوں کاسامنا کررہے ہیں۔ مختلف مکتب ہائی فکرسے تعلق رکھنے والے افراد کا کہناہے کہ کروناوائرس کی بیماری جب عروج پرتھی تب بھی وادی کشمیرمیں کمنٹی کلاسوں کااہتما م کیاجاسکتا تھااور اگرسرکار چاہئے تو اب بھی ہوسکتاہے مگر معلوم نہیں یہ صلاح کیوں دی جاتے کہ فی الحال اسکولوں کالجوں میں درس وتدریس نہیں ہوگا۔ لوگوں کایہ کہناہے کہ اگرویکسنیشن طلاب کی لئے لازمی ہے تو سرکار کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے ایک مقررہ وقت کے اندراندر طلاب کی ویکسنیشن بھی ہوسکتیہے عوامی حلقوں کے مطابقسرکار کوآگاز کرا چاہئیتاکہ جوطلاب اب تک درس وتدریس سے محروم رہیء ہے ان کے پے کچھ پڑ جائے اور وہ سالانہ امتحان میں شرکت کررہے ہے ۔یونیورسٹی کالجوں اور اسکولوں میں آن لائن درس وتدریس کا یہ سلسلہ بری طرح سے ناکام ہواہے اور طلاب اب اس درس وتدریس کی طرف مائل نہیں ہورہے ہیں ۔
Comments are closed.