کورونالاک ڈاون میں نرمی ،حالات قدرے بہتر ،معمولات زندگی بحال؛ بچوں کی تعلیم بدستور متاثر ،آن لائن کلاسزباعث تنائو ، والدین فکر مند،تعلیمی اداروں کو کھولنے پر زور

سرینگر // کے پی ایس : عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائر س کی دوسری لہر کی شدت کے بعد بھارت کی دوسری ریاستوں کی طرح جموں وکشمیر میں بھی لاک ڈاون نافذ کیا گیا اورکرونا معاملات اور اموات میں کمی آنے کے بعد مسلسل دو ماہ لاک ڈاون میں نرمی لائی گئی اور تمام کاروباری و ادارتی سرگرمیاں ایک بار پھر بحال ہوئی اور بازاروں ودفاتر میں رونق لوٹ آئی ۔اب حالات قدرے بہتر ہیں اور معمولات زندگی بحال ہوئی ہے تاہم اسکول 2سال 8ماہ اور 19دنوں سے مقفل ہیں ۔اگر چہ اس مدت کے دوران کبھی اسکول کھولے گئے یا امتحانات لئے گئے لیکن درس وتدریس بُری طرح متاثر رہا اورہر سرگرمی کو بند کرنے سے پہلے اسکولوں کو بند کرنے کے سرکاری حکم نامہ جاری کئے جاتے ہیں ۔چاہئے وہ ہڑتال ہو ، کوڈ ہو یا کوئی ہنگامہ ہونے والا ہو ۔توان صورتوں میںسب سے پہلے اسکولوں پر تالے چڑھائے جاتے ہیں۔کورونا کی اس لہر کی شروعات کے بعد سب پہلے اسکولوں کو ہی بند کیا گیا اور ماضی میںآزمائے گئے جدید فارمولہ کے تحت ایک بار پھر آن لائن کلاسز کا آغاز کیا گیا ۔ شہر ودیہات میں سرکاری وغیر سرکاری اسکولوں میں تعینات اساتذہ نے محکمہ تعلیم کی نئی ٹرینڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے ز وم ایپ کے ذریعے زیر تعلیم بچوں کوایک لائحہ عمل کے تحت متواتر طور آن لائن کلاسز پڑھانے کا عمل شروع کیا ہے اور مجموعی طور اساتذہ آن لائن پڑھانے میں خاصی دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیںاور بچے بھی اپنے اساتذہ سے استفادہ کرتے ہیں ۔کورونا وائرس کی وجہ سے پیداشدہ صورتحال کے پیش نظر اس طرح کے اقدام اٹھانا لازمی بن گیا تھا آن لائن کلاسز کے ذریعے بچے گھر بیٹھے کم از کم اپنے اساتذہ اور کتابوں سے وابستہ رہتے ہیں۔اگر چہ یہ آن لائن سسٹم غریب اور پسماندہ علاقوں میں رہنے والوں کیلئے بار گراں اور مشکل ہے کیونکہ ان کے پاس یا تو فون دستیاب نہیں ہے یا نیٹ ورک کامسئلہ درپیش ہے ۔تاہم بچوں کی اکثریت نے اپنے والدین یا دیگر رشتہ داروں کے فون حاصل کئے ہوئے ہیںاور زوم ایپ کے ذریعے اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں یا مقامی اساتذہ نے کمیونٹی کلاسز کے تحت درس وتدریس کا عمل شروع کیا ہے جس میں ان بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے ۔دوسری طرف آن لائن کلاسز سے بچوں کی نشو نما اور اخلاقی قدریں متاثر ہونے لگی ہیں ۔ کیونکہ بچے موبائیل فونزپر پڑھنے کے بجائے ،ڈرامہ،سرئیل،فلمیں اور گیمز دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں جو ان کے مستقبل کیلئے خطرے کا باعث بن سکتا ہے ۔کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والدین نے بتایاکہ جموں وکشمیر کی تشکیل نو معاملہ کے بعدپیدا شدہ صورتحال یا عالمگیر وبائی بیماری کورونا وائرس کی مہاماری کی وجہ سے گذشتہ تقریباً دو برسوں سے اسکول بند ہیں جس سے ان کے بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوگیا ۔ اسکول بند ہونے کے دوران سرکار نے جدید ٹیکنالوجی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا چونکہ آج کے دور میں بچے اس حوالے سے ہوشیار ہیں اور موبائیل کی تمام ایپلی کیشنزکا استعمال بہ آسانی باعمل لاتے ہیں اور ان حالات میں درس وتدریس کا یہی واحد ذریعہ دستیاب ہے اور اسی وجہ سے امیرزادوں کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں نے بھی مجبوری کے باعث اپنے بچوں کا مستقبل روشن و تابناک بنانے کیلئے قرض وفرض کرکے ان کو فون مہیا کئے ۔ اساتذہ اور اسکول منتظمین نے ایک لائحہ عمل کے تحت زوم ایپ کے ذریعے بچوں کو روبروکرکے ان کو پڑھانے کا عمل شروع ہے ۔اگر چہ متعلقہ اساتذہ بچوں کو پابند بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاہم اسکول کی طرح وہ ان پر قابو نہیں پاتے ہیں۔ فون کے غلط استعمال پرجب والدین ان کو قابو میں لانے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ ذہنی کوفت کے شکار ہوجاتے ہیں ۔کیونکہ ایک طرف معصوم بچے پابند سلاسل ہوئے جس سے وہ اپنی طفلانہ حرکتوں کو انجام دینے سے قاصر رہتے ہیں اور اس دوران وہ پڑھائی کے بجائے موبائیل فون کی دوسری ایپلی کیشنز کو استعمال میں لاکراپنا قیمتی وقت ضائع کررہے ہیںجبکہ ان کوان اسباق سے آئندہ کیلئے واقف ہونا لازمی ہوتا ہے جب بچے کی بنیادصحیح ہوتو وہ مستقبل کے تمام مشکلوں اور چیلنجوں کا بہ آسانی حل نکال سکتے ہیں ۔ موبائیل فون ان کے مستقبل کی اب ضمانت معلوم ہوتی ہے لیکن بچوں کے استعمال کے اعتبار سے یہی ان کوتاریکیوں میں دھکیلنے کا سبب بن گیا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے تعلیمی ماہرین اورسماج کے ذی حس افراد سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں کو کھولنے کے احکامات صادر کئے جائیں اور ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جس سے ہماری نئی نسل کا کوروناوائرس جیسی مہلک بیماری سے محفوظ رہ سکے اور ان کامستقبل تاریک ہونے کے بجائے تابناک اور روشن ثابت ہوجائے۔

Comments are closed.