کوروناوائرس کی دوسری لہر کے بیچ عالم انسانیت اقتصادی بحران سے دوچار
وائرس سے بچنے کیلئے احتیاط لازمی ،ویکسین لینا بھی ضروری،موجودہ صورتحال کے پیش نظر سرکار درپیش مسائل کا حل تلاش کرے
سرینگر ؛کے پی ایس : عالمگیر وبائی بیماری کورونا وائرس سے جہاں لوگوں میں اضطرابی حالت طاری ہے وہیں عالمی سطح پر اقتصادی بدحالی بھی رونما ہوئی ہے ۔کیونکہ لاک ڈاون سے تمام کاروباری اورتجارتی سرگرمیاں معطل ہیں ۔درآمدگی اور بر آمدگی کا سلسلہ بھی محدود ہوا ہے ۔ہر سو سناٹا چھایا ہواہے ۔دکانیں بند پڑی ہوئی ہیں اورفیلڈ میں کام کرنے والے کاروباری گذشتہ بیس دنوںسے گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔بڑے بڑے کارخانوں اور کمپنیوں کا کام کاج بھی ٹھپ ہواہے ۔اگرچہ دنیا میں وبائی بیماریاں پھوٹ پڑنے کا سلسلہ روز اول سے جاری ہے تاہم یہ وباء یا قحط سالی دنیا کے مخصوص خطوں میں رونما ہوتی تھی لیکن تاریخ انسانیت میں یہ پہلاواقعہ ہے جب اس وبائی بیماری جو کورونا کی صورت میں چین کے وُوہان علاقے سے شروع ہوکر دنیا کے بیشترممالک میں داخل ہوئی اور عالمگیر وبائی بیماری ثابت ہوئی ۔اس بیماری سے نجات پانے کیلئے اگر دنیا بھر کے سائنسدان اور ڈاکٹر اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم دو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک کسی ملک کا کوئی بھی سائنسدان یا ڈاکٹرایسا کورونا وائرس مخالف ویکسین یا دوا تیار کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ۔جس سے اس کا مکمل خاتمہ ہوسکتا ۔اگرچہ کوڈ مخالف ویکسین کے ٹیکے لگائے جارہے ہیں تو ماہرین کے مطابق اس سے افاقہ ہوسکتا ہے لیکن مکمل ازالہ ممکن نہیں ہے ۔فی الحال ڈاکٹر وں نے اس وائرس سے بچنے کیلئے سماجی دوری اختیار کرنے اور گھروں میں قیدیوں کی طرح رہنے کو ہی نجات کا ذریعہ قرار دیا ہے اور کوروناوائرس کی دوسری لہر کی شدت کے باعث بھارت میںہرسو لاک ڈاون کا نفاذ عمل میں لایا گیا ہے اور لوگوں کوسختی سے اس پر عمل کرنے کی تاکید کی جارہی ہے جبکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوںکیخلاف تادیبی کاروائی عمل میں لانے کی بھی وارننگ جاری کی گئی ہے اور جموں وکشمیر میں بھی آج 22دنوں سے بندشوں اور رکاوٹوں کا سلسلہ جاری ہے ۔یہ لاک ڈاون لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے نافذالعمل ہے لیکن اس سے کاروباری اورتجارتی سرگرمیاں معدوم ہوگئی ہیں جس سے ادنیٰ واعلیٰ درجہ کے کاروباریوں اورتاجروں کی حالت خراب ہوگئی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ کاروباری اداروں سے دنیا کی نصف آبادی کا روزگار وابستہ ہے لیکن جب ان کاروباری اداروں کاکام کاج رُک گیا تو اس کا براہ راست اثر جہاں مالکان ادارہ پر پڑاہے وہیں ان اداروں میں کام کرنے والے ملازمین واہلکار بھی متاثر ہورہے ہیں ۔اس حوالے سے منفی اثرات کااگرچہ ابھی صحیح اعداد شمار سامنے نہیں آیا ہے تاہم مستقبل قریب میں اس کے منفی نتائج برآمدہونگے تو اس وقت عالمی سطح پر اقتصادی بحران سامنے آئے گا ۔کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے سماج کے کئی حساس افراد نے بتایا کہ جموں وکشمیر میں اگر گذشتہ تین دہائیوں سے کشیدہ اور نامساعد حالات سے لوگ گذر رہے تھے تاہم ان حالات کے دوران کئی اہم چیزوں کی خریداری زیادہ سے زیادہ ہورہی تھی جن میں ادویات سرفہرست ہے کیونکہ بیمار پڑنے کے بعد درد میں افاقہ کیلئے دوا ہی ایک ذریعہ بنتا ہے لیکن آج کی تاریخ میں ادویات کی دکانیں اور کمپنیاں بھی متاثر ہوئی ہیں کیونکہ یہاں کے بیشتر اسپتالوں میں اوپی ڈیز بند رکھی گئی ہیں جبکہ بیشتر اسپتال قرنطینہ میں تبدیل کئے گئے ہیں ۔اس طرح سے مریض جائے تو جائے کہاں ؟اور دوا فروش کے پاس کس لئے جائیں جب ڈاکٹر سے ادویات لینے کا کوئی مشورہ ہی نہ ہو ۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح اشیائے خوردنی ،اخبارات ودیگر ضروری چیزوں کا کاروبار بھی بند ہوا جس سے غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد سے زیادہ بڑے کاروبار کرنے والے افراد پریشان ہوئے ہیں ۔انہوں نے موجودہ انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ سرکاری سطح پر موجودہ صورتحال کے پیش نظر کوروناوائرس سے لوگوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے جس سے اقتصادی بدحالی سے نجات حاصل کرسکیں اور ان حالات کا ہر کوئی شخص مقابلہ کرسکے گا ۔
Comments are closed.