شمالی کشمیر کا پہلا طبی مرکز پرائمری ہیلتھ سینٹر ترہگام: دور جدید میں بھی ترقی سے محروم۔ لوگوں کو پریشانیوں کا سامنا
کپواڑہ 16اپریل: ترہگام کپواڑہ میں قائم پرائمری ہیلتھ سینٹر دور جدید میں بھی ترقی سے محروم ہے تاہم بلاک میڈیکل آفیسر کی بہتر کار کردگی سے ہی مزکورہ اسپتال ایک جازب نظر طبی مرکز دکھائی دے رہا ہے ۔قصبہ ترہگام کے مقامی باشندوں نے نمائند ہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ قصبہ ترہگام میں 1865ءمیں مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے ایک طبی وجراحی سینٹر کی سنگ بنیاد رکھی تھی اور زمانہ قدیم میں مزکورہ طبی سینٹر شمالی کشمیر کا واحد ایک طبی سینٹر تھا اور شاردا پیٹ جوکہ کیرن کے اطراف میں واقع ہے تک یاتریوں کی رسائی کے دوران طبی جا نچ کا ایک واحد مرکز تھا۔اور جو بھی یاتری شاردا پھیٹ دشوار گزار پہاڈی دروں سے آمد رفت کے دوران بیمار ہوتے تھے انکا اعلاج ترہگام کے اسی اسپتال میں ہوا کرتا تھا تاہم وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ مزکورہ اسپتال کی حالت بد سے بر تر ہوتی گئی اور سرکار کی طرف سے مزکورہ تاریخی اسپتال کو پس پشت ڈال کر گمنامی کے تاریک پہلو میں دفن کیا گیا۔علاقہ ترہگام کے ایک بزرگ اور زی عزت شہری غلام رسول شاہ نے نمائندہ کو روداد بیان کرتے ہوئے بتایا کہ مزکورہ اسپتال میں انکی والدہ کا آپریشن 1962ءمیں ڈاکٹر علی محمد راتھر اور ڈاکٹر محمد یوسف ڈار جوکہ اس زمانے کے مشہور اور معروف ڈاکٹر مانے جاتے تھے نے کیا تھا جبکہ ان ایام میں شمالی کشمیر میں اور کوئی جراہی کا مرکز اس نوعیت کا نہیں تھا انہوں نے بتایا کہ مزکورہ اسپتال میں کشمیر کے مشہور ومعروف ڈاکٹران اپنے فرائض انجام دے چکے ہیں جن میں ڈاکٹر علی محمد جان اور ڈاکٹر ٹھسو جوکہ 1984میں مزکورہ اسپتال میں تعینات تھے۔تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزکورہ اسپتال کو 1986میں جگموہن گونر جموں وکشمیر نے مزکورہ اسپتال کو اضافی وارڈس کی ترقی سے نوازا تھا لیکن ضلع کپوارہ کا پہلا طبی مرکز ہونے کے باوجود بھی مزکورہ اسپتال ابھی بھی پرائمری ہیلتھ سینٹر ہی ہے اور دور جدید کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے اور مزکورہ اسپتال کو ابھی تک بھی اپ گریڈ نہیں کیا گیا اور نہ ہی ملازمین کی اپ گریڈیشن ہوءاور نہ ہی مزکورہ اسپتال میں ماہر ڈاکٹروں کی موجودگی کو ممکن بنایا گیا مزکورہ اسپتال میں کوئی ماہر لیڈی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہے اور نہ ہی گاینکالجسٹ عملہ دستیاب ہے۔جبکہ مزکورہ اسپتال میں پانی کی سپلائی کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی مزکورہ اسپتال کو بجلی کا کوئی خاص انتظام میسر ہے جبکہ مندر اور مسجد ودیگر اداروں کیلئے محکمہ بجلی کی ہاٹ لاین مزکورہ اسپتال سے گزتی ہے تاہم محکمہ بجلی کے آفیسران نے آج تک بھی مزکورہ اسپتال کو ہاٹ لاین سے برقی رو فراہم کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے جس کی وجہ سے دوران شب طبعی عملہ کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مریضوں کی طبعی جانچ کے معاملات میں دشواریاں پیش آرہی ہیں ۔ اس حوالے سے جب نمائندہ نے مزکورہ اسپتال میں تعینات بلاک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر طاریق احمد سے ملاقات کی تو اس دوران انہوں بتایا کہ واقعی مزکورہ اسپتال ایک پرانا اسپتال ہے اور پرانی یادگار ہے لیکن مزکورہ اسپتال میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے اور مزکورہ اسپتال کی اپ گریڈیشن اور طبعی عملہ میں کریئشن کرنا بھی ایک مسئلہ ہے اور اشد ضرورت بھی ہے جبکہ مزکورہ اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر کا پوسٹ ہے تاہم لیڈی ڈاکٹر دستیاب نہیں ہے اس دوران انہوں نے بتایا کہ مزکورہ اسپتال میں سولر سسٹم اور جنریٹر سسٹم بھی پرانا ہے اور ناکارہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے انکو طبعی معاملات میں بجلی کی عدم دستیابی سے کافی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔
Comments are closed.