دہلی کی حکومت کو بے اختیار کرنا وفاقی نظام پر براہ راست حملہ؛ 5اگست2019کے فیصلوں کی طرح مرکز کے تازہ اقدامات بھی غیر آئینی/حسنین مسعودی

سرینگر/23مارچ: نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمان برائے جنوبی کشمیر جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے آج لوک سبھا میں نیشنل کیپٹل ٹیرٹری (ترمیمی) بل2021، جس کے تحت دہلی میں لیفٹنٹ گورنر کو مزید اختیارات دیئے گئے، کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملک کے وفاقی نظام پر براہ راست حملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی کی سرکار کو بے اختیار کرنا وفاقی نظام کیخلاف اور آئین کی سریحاً خلاف ورزی ہے۔سی این آئی کے مطابق انہوں نے کہا کہ 5اگست2019کو جموں وکشمیر کیساتھ بھی کچھ ایسا ہی کیا گیا اور جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر اور آئین کو روند کر ہماری ریاست کے ٹکڑے کئے گئے اور ہماری خصوصی پوزیشن ختم کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ آئین کی دفعہ3اور دفعہ367کو روند کر کئے گئے۔ اُس وقت مرکزی حکومت نے کہا کہ دفعہ370عارضی تھا، اگر دفعہ370عارضی ہوتا تو وہ جموں و کشمیر کی اندرونی خودمختاری کیسے ممکن ہو پاتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر دفعہ370عارضی تھا تو پھر دفعہ371(a)سے لیکر(j)تک ساری دفعات عارضی ہیں۔ حسنین مسعودی نے کہاکہ 5اگست 2019کے اقدامات غیر آئینی تھے اور آج جو دہلی کیساتھ کیا جارہا ہے وہ بھی غیر آئینی ہے۔ سپریم کورٹ نے صاف صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملک کا وفاقی نظام آئین کی بنیاد ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس ایوان کو وفاق کیساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کہاکہ عآپ اور کیجروال نے 5اگست2019کے فیصلوں میں مرکزی حکومت کا ساتھ دیا تھا اور آج اُنہیں خود ویسی ہی صورتحال سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عآپ کی طرح مرکز کے غلط فیصلوں میں ساتھ نہیں دیں گے، یہ آئین کی سریحاً خلاف ورزی ہے اور ہم اس کی مخالفت کریںگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مرکزی حکومت کو لیفٹنٹ گورنر کو ہی تمام اختیارات دینے ہیں تو پھر لیجسلیٹو اسمبلی رکھنے کا کیا مقصد ہے؟ دریں اثنا حسنین مسعودی نے جموں و کشمیر کے 80ہزار ڈیلی ویجروں، کیلجول اور کنٹریکچول لیبروں، لیکچرروں اور ملازمین کی مستقلی کا مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مطالبہ کیا کہ 5 اگست 2019کو مختلف پیرامیڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے تمام افراد کا فارماسسٹوں کے طور اندراج کیا جائے۔

Comments are closed.