شعبہ صحت کے استحکام کے حوالے سے سرکاری دعوئے سراب ثابت

اسپتالوں میں جدید طبی سہولیات کا فقدان ،ڈاکٹروں کا رویہ مریضوں اور تیمارداروں کے ساتھ منفی ،ذمہ داریوں کا احساس دلایا ناگزیر

سرینگر /19مارچ / کے پی ایس : جسمانی صحت کو ٹھیک کرنے کیلئے شعبہ صحت یعنی اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے ساتھ رابط جوڑنا ضروری بن جاتا ہے ۔ زندہ سماج میں انسان کو زندہ رہنے کیلئے شعبہ صحت کے ساتھ بلواسطہ یا بلاواسطہ وابستہ رہنا لازمی بھی ہے اور ضرورت بھی ہے کیونکہ صحت یابی سے ہی انسان زندگی کے نظام کو چلاسکتا ہے ۔لیکن بدقسمتی کی وجہ سے شعبہ صحت اتنی بڑی اہمیت کا حامل ہونے کے باجود بھی سرکاری طور وعدوں و اعلانات کے بعد بھی نظر انداز کیاجارہا ہے کیونکہ اس وقت ہمارے یہاں کے قائم شدہ اسپتالوں کی حالت اور ڈاکٹروں کے سلوک سے طبی مشوروں میں رکاوٹیں اور دشواریاں پیش آتی ہیں ۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے صحت میںبگاڑ کے بعد مذکورہ شعبہ کے قائم شدہ اسپتالوں کی طرف مریض کو رُخ کرنا پڑتا ہے اور اسپتالوں میںتعینات ڈاکٹر صاحبان مریض کے مرض کی تشخیص کرکے اِس کا علاج ومعالجہ کرتا ہے اور موافق ادویات لینے کا مشورہ دیتا ہے ۔لیکن یہاں ہمارے ڈاکٹر صاحبان کا سلوک اور رویہ بالکل منفی ہوتا ہے جس سے مریض دلبرداشت ہوجاتا ہے ۔اب چونکہ ایسی خطرناک اور مہلک بیماریوں نے انسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے ۔جس کیلئے جن بیماریوں کی تشخیص جدید ٹیکنالوجی سے لیس مشینریوں سے ہی ممکن ہوسکتے ہیں۔ لیکن سرکاری اسپتالوں میں قائم مشنریاں یا تو بے کار پڑی ہوئی ہیں یا منظور نظر افراد کوہی ان کا فائدہ پہنچتا ہے اور سرکاری قائم شدہ اسپتالوں میں اب بھی روایتی ٹسٹ کئے جاتے ہیں جبکہ بڑے اور ضروری ٹیسٹ اسپتال سے باہر کرانے پڑتے ہیں۔ غریب مریض جواِن ٹسٹوں کی سکت نہیںرکھتے ہیں،کے سبب موت کے منہ میںچلے جاتے ہیں اور اِن کے لواحقین اپنی غربت کا روناروتے ہیں اور سرکاری اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ ایک بیڈپر دو یا تین مریض بیک وقت ایڈمٹ کئے جاتے ہیں حیرانگی کی بات یہ ہے داخل مریضوں کے متعدد ٹسٹ اور سرجری کیلئے ضروری سامان اسپتال سے باہر کرانے اور لانے پڑتے ہیں ۔سرکار کے دعوے اِن حالات سے بالکل کھوکھلے اور سراب ثابت ہوجاتے ہیں۔اس ضمن میں کشمیر پریس سروس کو آئے روز مختلف علاقوں اور قصبوں سے باربار اسپتالوں کے متعلق شکایات کے فون کالز موصولہ ہورہی ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ ان کے علاقوں میں سب ہیلتھ سنٹر یا پرائمری ہیلتھ سنٹر قائم ہیں لیکن نہ ہی ان سنٹروں میں طبی سہولیات میسر ہیں اور نہ ہی ڈاکٹروں کی اچھی خاصی تعداد تعینات ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جو ڈاکٹر صاحبان کارویہ کسی بھی صورت میں مریضوں کے ساتھ اچھا نہیں پایاجاتا ہے بلکہ ڈاکٹر اپنے ذاتی مفاد ے خاطر ایسے ٹسٹ نجی لیبارٹریوںپر کراتے ہیں جو ان مریضوں پر بارگراں گذرتی ہیں ۔اگر چہ کئی اسپتالوں میں جدید مشینری موجود ہیں لیکن ان کو بروئے کار لانے کے بجائے اپنے ذاتی فائدہ کیلئے نجی کلنکوں پر جانے پر مجبور کرتے ہیں جن کے پاس ٹسٹ کرانے کی مالی سکت نہیں ہوتی ہے وہ عش عش کرکے مرجاتا ہے ۔یہاں کے بڑے اسپتالوں ایس ایم ایچ ایس ،سکمز یا لل دید اسپتال اثررسوخ رکھنے والے ہی مریضوں کیلئے آس اور امید بنے ہوئے ہیں جبکہ عام لوگوں کیلئے یہ اسپتال ذبح خانے دکھائی دے رہے ہیں ۔اس ضمن میں مریضوں اور ان کے تیمار دار فون پر بتاتے رہتے ہیں کہ ٹسٹوں کی بھر مار اور ادویات کا بحران ان کیلئے باعث عذاب بنا ہوا ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ مشینری ہونے کے باوجود بھی ڈاکٹر اپنی منسلک نجی لیبارٹری سے ہی کرانے پر بضد رہتے ہیں اور دوسری لیبارٹریوں کے ٹسٹ مسترد کئے جاتے ہیں ۔جبکہ ادویات کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ سے بھی مریضوں اور ان کے تیمارداروں کو سخت مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے محکمہ صحت کے حکام سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسپتالوں میں طبی سہولیات کو مریضوں کیلئے بہم پہنچانے اور ڈاکٹر وں کو مریضوں کے تئیں نرم لہجہ ،جذبہ وایثار اور تسلی و تشفی کارویہ اپنا یا جائے تاکہ عام مریض راحت کی سانس لے سکیں گے ۔

Comments are closed.