جموں کشمیر میں سرحدوں پر امن کی فضاء قائم ہونے کے بعد ؛ سرحدی علاقوں میں قائم سکول دوبارہ کھلے ، تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونے سے بچے خوش

سرینگر/16مارچ: جموں کشمیر میں ہندوستان اور پاکستان کے مابین لگنے والی سرحدوں پر جنگ بندی کے بعد سرحدی علاقوں میں برسوں بعدتعلیمی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئیں ہیں ۔ کرناہ ، ٹنگڈار، مژھل ، اوڑی کے دیگوار اور دیگر سرحدی سیکٹروںکے علاوہ صوبہ جموں کے کرینی ، کھڑی ، بالاکوٹ اور دیگر سیکٹروں میں قائم سرکاری سکولوں میں دوبارہ تعلیمی نظام بحال ہوا ہے جس پر مقامی لوگوں نے اطمینان کااظہارکیا ہے اس دوران طلبہ اور اساتذہ نے خوشی کااظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سب سے زیادہ متاثر تعلیمی شعبہ ہی ہوا تھاتاہم اب سرحدوں پر امن کی فضاء قائم ہونے سے بچے بے خوف سکول جارہے ہیں ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد پر جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل آوری سے ان علاقوں میں رہ رہے عام لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ پچھلے بیس دن سے لاگو اس معاہدے سے کنٹرول لائن اور بین الاقوامی سرحد سے متصل علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں دوبارہ بحال ہوگئی ہیں۔ پونچھ ضلع کے کیرنی ، دگوار ، کھڑی اور کرماڑا علاقے ہمیشہ پاکستان کی گولہ باری کی زد میں آتے رہے ہیں۔ تاہم اب جنگ بندی معاہدے کی پاسداری کے نتیجے میں ان علاقوں میں تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔پونچھ ضلع کے کیرنی سیکٹر میں کنٹرول لائن سے متصل آخری سرکاری مڈل اسکول میں ان دنوں درس و تدریس کا عمل جاری ہے۔ اس اسکول میں زیر تعلیم لگ بھگ سو طلبہ اب بلا کسی خوف و خطر اپنی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ساتویں جماعت کے طالب علم عاقب احمد کا کہنا ہے کہ ہم کئی برسوں کے بعد باہر بیٹھ کر پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ ماضی قریب میں وہ گولہ باری کی وجہ سے اسکول کی عمارت میں بھی نہیں پڑھ پا رہے تھے۔عاقب کا کہنا ہے کہ وہ بسا اوقات سرحد پار کی گولہ باری کی وجہ سے اسکول آنے سے کتراتے تھے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اب سکون سے پڑھ پارہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مستقبل میں بھی کنٹرول لائن کے آس پاس امن کا ماحول رہے۔ چوتھی جماعت کی نجمہ کوثر کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے سکول آنے سے ڈر لگتا تھا اور اب فائرنگ رْک جانے کے بعد وہ اپنی تعلیم حاصل کر پارہی ہیں اور امید ہے کہ وہ آگے پڑھ لکھ کر اپنے مستقبل کو سنوار سکے گی۔کنٹرول لائن سے متصل علاقوں میں تعینات اساتذہ بھی جنگ بندی معاہدے کی مکمل عمل آوری کے فیصلہ کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔ نجمْل میر نامی استاد نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان کنٹرول لائن پر امن قائم رکھنے کے فیصلے سے تعلیمی سرگرمیوں پر کافی اچھا اثر پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے فائرنگ کی وجہ سے ان علاقوں میں خوف و حراس کا ماحول رہتا تھا ، جس وجہ سے بچے سہم جاتے تھے اور وہ اسکول آنے سے ہچکچا تے تھے۔ اب جبکہ ماحول میں سْدھار آگیا ہے تو اسکول آنے والے بچوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کئی بار پاکستان کی بلا اشتعال فائرنگ کی وجہ سے بچوں کو دیر شام تک اسکول میں ہی رکنا پڑتا تھا اور فائرنگ کے رْک جانے کے بعد رات دیر گئے بچوں کو اپنے والدین کے سْپرد کیا کرتے تھے۔ ان کی خواہش ہے کہ سرحد اور کنٹرول لائن پر امن کے حالات برقرار رہیں۔اگرچہ عام لوگوں نے اس معاہدے کے بعد راحت کی سانس لی ہے۔ تاہم وہ یہ خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ پاکستان کبھی بھی اپنے وعدے سے مْکر سکتا ہے ، جس کا خمیازہ عام لوگوں کو اْٹھانا پڑے گا۔

Comments are closed.