جموں کشمیر میں ہر برس شجر کاری مہم پر کروڑوں خرچ ،ولیکن!؛ زمینی سطح پر آج تک کوئی بھی علاقہ سرسبز اور شاداب نہیں ہوا

سرینگر/07مارچ/: وادی کے مختلف علاقوں میں برسوں سے چلائی جارہی شجر کاری مہم زمینی سطح پر ناکام دکھائی دے رہی ہے اس مہم پر کروڑوں روپے صرف ہونے کے باوجود بھی آج تک متعلقہ محکمہ کسی ایک علاقے میں ایک درجن بھی پیڑ پودوں کو بچانے اور ان کو مکمل طور پر اُگانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے اور ہر برس مختلف سکولوں ، ہسپتالوں اور دیگر اہم جگہوں پر جو پیڑ لگائے جاتے ہیں اگلے برس تک ان پیڑ پودوں کا نام و نشان بھی کہیں موجود نہیں ہوتا۔ سی این آئی کے مطابق اگرچہ ہر سال مارچ اور اپریل کے مہینوں میں سرکاری اداروں کی طرف سے درخت لگانے کی اہمیت پر زور دیا جاتا ہے اور مختلف جگہوں پر شجر کاری کی جاتی ہے اس ضمن میں منعقدہ تقریبات پر کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن زمینی سطح پر شجر کاری کہیں نظر نہیں آتی ۔ذرائع کے مطابق گزشتہ سال کے جموں کشمیر انتظامیہ نے تو ایک کروڑ درخت لگانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ ہر سال درخت لگانے کا جس قدر دعویٰ کیا جاتا ہے اگر وہ واقعی لگائے جاتے تو آج پورا جموں وکشمیر سرسبز و شاداب نظر آتا ۔ سرزمین پر نہیں کاغذات پر اور فائلوں میں ترقی کر رہے ہیں۔ پہلے تو سیکرٹریٹ میں ایک پودا لگا کر کہا جاتا تھا کہ شجرکاری مہم کا آغاز کر دیا ہے اور پھر یہ سمجھ لیا جاتا تھا کہ اب پوری قوم پودے لگا رہی ہے لیکن اب تعداد بھی بتادی جاتی ہے کہ اتنے لاکھ یا اتنے کروڑ پودے لگا دئے گئے ہیں۔ ضلعی افسران اپنے دفتروں کے لان میں پودا لگا کر اپنا فرض ادا کر لیتے ہیں۔ ان افسروں کے لانوں کے علاوہ شہروں کے باہر زمینداروں کے کھیتوں میں اس مہم کے ذریعے کبھی کوئی پودا نہیں لگایا گیا اور سرکاری جنگلات میں تو گزشتہ بیس برس کے دوران پہلے لگے ہوئے جنگلات کا بھی صفایا ہو چکا ہے۔شجرکاری مہم صرف اخبارات اور سرکاری دفتروں تک محدود رہتی ہے۔ زمیندار اور کاشتکار سنتا اور پڑھتا ضرور ہے اس سے متاثر نہیں ہوتا نہ اس پر عمل کرتا ہے۔ زمیندار اور کاشتکار کا کام فصل کاشت کرنا ہے۔ درختوں کی نرسری لگانا اس کا کام نہیں۔ اس کے پاس درختوں کی پنیری ہی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی ضرورت کے مطابق اپنی زمین میں درخت لگاتاہے اگر وہ زیادہ تعداد میں درخت کاشت کرنا بھی چاہے تو اس کے پاس نرسری نہیں ہوتی۔ نرسری کے لئے مارے مارے پھرنے کا اس کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ اگر سرکار واقعی جموں کشمیر کو سرسبز و شاداب دیکھنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ محکمہ جنگلات سے ایک سال یا چھ ماہ پہلے کروڑوں کی تعداد میں مختلف پودوں کی نرسریاں لگوائے جو زبانی کلامی نہیں عملاً لگوائی جائیں پھر شجرکاری کے موسم میں محکمہ زراعت کے ذریعے کاشتکاروں اور زمینداروں کو پودے فی ایکڑ رعایتی قیمت پر تقسیم کئے جائیں۔ محکمہ مال نگرانی کرے۔ اجڑے ہوئے جنگلات کو ہنگامی بنیاد پر آباد کیا جائے۔ وڈیروں سے محکمہ جنگلات کی زمین واگزار کرائی جائے۔ محکمہ جنگلات کے سست اور کاہل ملازموں کو ٹریننگ دے کر ذمہ داری کا احساس دلایا جائے۔ اس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ چند سال میں ہی ہمارا جموں و کشمیر سرسبز و شاداب ہو جائے گا۔ ورنہ دفتروں کے لان میں ایک ایک پودا لگا کرمطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔

Comments are closed.