کورونا وائرس کی مہاماری کے بیچ ایس او پیز کی صریحاً پامالی ،سرکاری ہدایات صرف کاغذوں پر موجود
اسپتالوں ،دفاتر ،بازاروں اور گاڑیوں میں بے ضابطگیاں جاری ،اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کا تدریسی عمل مشروط بنیادوں پر شروع
رپورٹ
سرینگر /3مارچ / کے پی ایس: عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائرس نے دنیاکے بیشتر ممالک میں افراتفری مچائی اور اس مہلک بیماری سے لاکھوں لوگوں کی جانیں تلف ہوئیں جبکہ کروڑوں کی تعداد میں اس کی لپیٹ میں آکرکافی مشکلات سے دوچار ہوئے اور گذشتہ ایک سال سے کوروناوائرس کی وجہ کاروباری سرگرمیاں مجموعی طور معطل رہیںجس کے نتیجے میں اقتصادی بدحالی رونما ہوئی ہے ۔جبکہ تعلیمی شعبہ بُری طرح متاثر ہوا جس سے زیر تعلیمبچوں کا قیمتی وقت ضائع ہوا ۔اگر چہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر ایک نئی ٹرینڈ کے تحت آن لائن بچو ں کو پڑھانے کی کوشش کی تاہم حصول تعلیم کیلئے درس وتدریس لازمی اور ناگزیر ہے ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی کشمیر میں کوروناوائرس سے پہلے ہی یعنی 5اگست 2019سے ہی اسکول مقفل ہوئے تھے اور کاروباری سرگرمیاں مسلسل متاثر ہیں ۔اگرچہ یہاں کئی مہینوں سے اب کوروناوائرس کے پھیلائو میں کمی آئی تھی اور سردیوں میں لوگوں کا عبور ومرور کم تھا لیکن اب لوگوں کی گہماگہمی بڑھنے لگی ہے اور وائرس کی لپیٹ میں آنے والے مریضوں کی تعداد ایک بار پھر اضافہ ہونے لگا ہے جو قابل تشویش اور فکرمندی کا باعث ہے ۔ماہرین اور انتظامیہ نے روزاول سے مرتب شدہ ایس او پیز پر عمل کرنے کی تاکید کی ہے اور کرتی رہتی ہے ۔لیکن کشمیر پریس سروس کے نمائندے کے عینی مشاہدہ کے مطابق بازاروں ،گاڑیوں ،اسپتالوں اور سرکاری وغیر سرکاری دفاتر میں ایس اوپیز پر عمل درآمد نہیں ہورہا ہے بلکہ دیکھا جارہا ہے کہ گاڑیوں بالخصوص منی بسوں میں مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بٹھایا جارہا ہے ۔گاڑیوں میں پہلے سے بدترحالت ہوتی ہے کیونکہ ایسی اورلوڈنگ ہوتی ہے جس سے ایس او پیز یعنی دو گز کی دوری کا جان بچانے کے لئے ضروری کا نعرہ صرف بیان بازیاں ہی ہیں جبکہ زمینی سطح پراس کا کوئی ادراک ہی نہیں ہے اور اسی طرح سے اسپتالوں یا دیگر اداروں میں لوگ ایک دوسرے پشت پر کھڑا ہوتے ہیں ۔تاہم اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین پر نشانہ سادھتے ہوئے اسکول انتظامیہ نے ایس او پیز اپنانے کیلئے والدین کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا ہے اور کئی اسکولوں نے وائرس کے پھیلائو کے باعث اسکول کھولنے کے بجائے آن لائن کلاسز کا پھر سے آغاز کیا ہے ۔اسکولوں اور مساجد ودیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں ہی ایس او پیز اپنانے کیلئے تاکید کی جارہی ہے اور ان مقامات پر اگر کسی کو ایس او پیز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پایا جائے گا تو ان کیخلاف کاروائی عمل میں لائی جائے گی لیکن اسپتالوں ،دفاتر بالخصوص گاڑیاں وغیرہ اس سے مستثنٰی کیوں رکھے گئے ہیں ؟ حالانکہ وہاں دو گز کی دوری بنانے اور ماسک پہنا ضروری ہے اور انہی جگہوں پر لازمی بھی ہے کیونکہ گاڑیوں ،اسپتالوں ،اداروں یا دفاتر میں مختلف افراد کی آواجاہی رہتی ہے ۔اگر سرکاری سطح پر اس کا فوری تدارک نہ کیا جائے اور لوگوں کو ایس او پیز اپنانے پر پابند نہ بنایاجائے تو آنے والے دنوں میں وائرس کے پھیلائو میں تیز ی کا خطرہ لاحق ہے ۔
Comments are closed.