دفعہ 370کی منسوخی کے بعد جموں کشمیر میں کوئی ترقی نہیں ہوئی / غلام نبی آزاد

اس دفعہ کی منسوخی کے بارے میں واجپائی اور ایڈوانی سے کبھی نہیں سنا تھا

سرینگر/03 فروری: انڈین کانگریس کے لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے لوک سبھا میں کہا کہ حکومت جموں کشمیر کی ریاست کی بحالی کیلئے بل لانی چاہئے اور وہاںپر جلد سے جلد اسمبلی انتخابات کرائے جانے چاہئے تاکہ جمہوری طرز حکومت قائم ہوسکے ۔ انہوںنے کہاکہ تقسیم ریاست اور خصوصی درجہ کی منسوخی سے جموںکشمیر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور ناہی تعمیر و ترقی کا کوئی دور شروع ہوا۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے سینئر ممبر رہنما ، غلام نبی آزاد نے بدھ کے روز کہا کہ حکومت کو جموں و کشمیر کی ریاست کی بحالی کے لئے ایک بل لانا چاہئے انہوںنے کہا کہ مرکزی سرکار نے جو ریاست کی تقسیم اور خصوصی درجہ کی واپسی کا فیصلہ لیا تھا اس سے ریاستی لوگ ناخوش ہیںاور ناہی اس کے بعد کوئی ترقی ہوئی ہے ۔ غلام نبی آزاد نے ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں نے اٹل بہاری واجپئی کو ہزاروں بار ایوان زیریں ، اراکین پارلیمنٹ ، وزیر ، اور وزیر اعظم کی حیثیت سے خطاب کرتے سنا ہے لیکن ان سے کبھی نہیں سنا۔ یا بی جے پی کے کسی بھی رہنما بشمول اس وقت کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع، یا لال کرشن اڈوانی کی جانب سے یہ بات سنی کی ریاست جموںکشمیر کو تقسیم کرنے یا دفعہ 370کی منسوخی کا کوئی منصوبہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ لداخ میںصرف لہہ ضلع یوٹی کا مطالبہ کرتا تھا لیکن یہ بات ناقابل فہم ہے کہ ہندوستان کی اس بڑی ریاست کو دو حصوں میں کیوں تقسیم کیا گیا جبکہ صرف لہہ ضلع کو مرکزی زیر انتظام کا علاقہ بنایا جاسکتا تھا۔انہوںنے کہا کہ تاریخ میں اکبر کی حکمرانی کے بعد یہ پہلی بار دیکھا گیا ہے ۔غلام نبی آزاد نے کہا کہ دلی کے علاوہ اگردنیا ہندوستان کی کسی ریاست کے بارے میں جانتا تھا یا دنیا کو پتہ تھا تو وہ کشمیر ہی ہے جو اپنی خوبصورتی کے سبب دنیا بھر میں مشہور ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی وزیر خارجہ یا ریاست کا سربراہ جو ہندوستان کا دورہ کرتا ہے وہ کشمیر کو جانتا ہے اور ایسا کوئی نہیں ہوگا جو اس کے سوا کسی اور جگہ کو اچھی طرح جانتا ہو۔کانگریس کے سینئر لیڈر اور حزب اختلاف لیڈر نے مزید کہا کہ ’’میں اب بھی یہ سمجھنے میں ناکام ہوں کہ جموں و کشمیر کی ریاست کو دو مرکزی خطوں میں تقسیم کیوں کیا گیا اب بھی امن و امان میں کوئی بہتری نہیں آسکی ہے کیونکہ یہ عسکریت پسندی سمیت منتخب حکومت کے دوران میں بھی ہوا کرتی تھی اور اب بھی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ منتخب حکومت کے دوران جو ترقیاتی کام جاری تھے ان سے اور کچھ زیادہ نہیں ہوا ، صحت، تعلیم کی حالت آج بھی بدتر ہے کیوں کہ دفعہ 370کی منسوخی کے بعد تعلیمی ادارے بند کردیئے گئے اور پھر وبائی بیماری پیدا ہوگئی لیکن جب حکومت نے آن لائن کلاسز شروع کیں تو تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ دستیاب نہیں تھاجو آج بھی بند ہے ۔ جب ریاست کے 2 سال تک تعلیمی ادارے بند رہیں تو یہ کس طرح ترقی کرسکتا ہے۔کانگریس کے سینئر رہنما نے کہا کہ وادی کشمیر میں سیاحت کی صنعت ختم ہوچکی ہے۔ گلمرگ جانے والے کچھ سیاح براہ راست ہوائی اڈے سے ایک فائیو اسٹار ہوٹل تک جاتے ہیں لیکن اس سے وادی کے مقامی کاروبار کو فائدہ نہیں ہوتا ہے جن میں ٹیکسی ڈرائیور ، گھوڑے کی گاڑی چلانے والے ، دکاندار اور دستکاری شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ، "ہزاروں ہوٹلوں میں ہزاروں افراد ملازم ہیں لیکن عملہ گھر میں ہے کیونکہ وہاں کوئی کام نہیں ہوا ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سڑکوں کی حالت ابتر ہے اور بٹوت سے بنیہال تک قومی شاہراہ پر پھیلا ہوا پچھلے 6 سال سے تکمیل کے منتظر ہے جس کی وجہ سے بھاری نقصان ہوا ہے۔ لداخ ، کشمیر اور جموں میں کوئی بھی آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنے پر خوش نہیں ہے۔

Comments are closed.