وادی میں بجلی کا بحران جاری ،دن رات بجلی کی آنکھ مچولی جاری ، لوگوںکو شدید مشکلات

ماہ نومبرسے ماہ فروری تک بجلی فراہمی کی صورتحال جوں کی توں ، خانیار سے خادنیار تک لوگ پریشا ن

سرینگر/03 فروری: سرینگر سے لیکرمژھل ،ٹنگڈار،ٹیٹوال اورگریز جیسے دورافتادہ علاقوں میں بجلی کی فراہمی کولیکربحرانی صورتحال پائی جاتی ہے جبکہ میٹراورغیرمیٹریافتہ علاقوں ،بستیوں اورکالونیوں میں رہنے والے بجلی صارفین کیلئے برقی رئوکی سپلائی کوعملاً شجرممنوعہ بنادیاگیا ہے۔ آبی ذخائرسے مالامال جموں وکشمیربالخصوص وادی میں بجلی سپلائی کی جوصورتحال پائی جاتی ہے وہ حیران کن ہے کیونکہ بجلی پروجیکٹوں اوربجلی پیدوارکے لحاظ سے ریاست کے دریاNHPCکیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغیوں سے کم نہیں۔تاہم اہلیان وادی کو دن رات بجلی کٹوتی کا غیر معمولی سامنا کرنا پڑرہا ہے اور دن رات بجلی کی آنکھ مچولی سے لوگ سخت پریشان ہوچکے ہیں۔سی این آئی کے مطابق یوٹی جموں کشمیر کی گرمائی راجدھانی شہرسرینگر سے لیکر شوپیاں ، کولگام ، پہلگام ، کوکرناگ، اوڑی ، ٹیٹوال، کرنا ہ ، گریز بانڈی پورہکے علاوہ وسطی کشمیر کے بڈگام، گاندربل اور دیگر علاقوں میں کے علاوہ سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں ماہ نومبر سے ہی بجلی سرکار دربار کے ساتھ باادب سرینگر سے اپنا بوریا بسترہ باندھ کر کہیں گھپائوں میں چلی جاتی ہے ۔ اور اہلیان وادی کو جب چاہئے اپنے نظر کرم سے بہرور کرتی ہے ۔سرینگر سے لیکرمژھل ،ٹنگڈار،ٹیٹوال اورگریز جیسے دورافتادہ علاقوں میں ماہ نومبرسے بجلی کی فراہمی کولیکربحرانی صورتحال پائی جاتی ہے جبکہ میٹراورغیرمیٹریافتہ علاقوں ،بستیوں اورکالونیوں میں رہنے والے بجلی صارفین کیلئے برقی رئوکی سپلائی کوعملاً شجرممنوعہ بنادیاگیا ہے اور ماہ نومبر سے اب تک ماہ فروری تک بجلی فراہمی کی جوں کی توں صورتحال برابر جاری ہے ۔اہل وادی کیلئے بجلی ایک ایسی شے بن گئی ہے جس کو یہاں کے لوگ سب سے زیادہ چاہتے ہیں۔ تاہم کشمیرمیں عام صارفین کوکٹوتی کی لاٹھی سے جیسے ہانکاجاتاہے ،وہ حقوق صارفین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اب وادی کے صارفین مفت بجلی استعمال نہیں کرتے بلکہ اُسے زیادہ فیس اداکرتے ہیں جتنی کہ اُنھیں بجلی استعمال کرنے کوفراہم کی جاتی ہے۔وادی کے اطراف واکناف میں روزانہ لوگ سڑکوں اورشاہراہوں پرنکل کر بجلی کی عدم دستیابی ،عدم فراہمی ،کٹوتی شیڈول ،آنکھ مچولی اورکم وئولٹیج کیخلاف صدائے احتجاج بلندکرتے نظرآتے ہیں لیکن کوئی نہ توانکی سنتاہے اورنہ ہی ان کی شکایات یاتکالیف کاازالہ ہی کرتاہے بلکہ اگرناراض صارفین زیادہ وقت تک کسی سڑک یاشاہراہ پراپنااحتجاجی دھرناجاری رکھیں توفوراًہی پولیس کوحرکت میں لاکراُن پرلاٹھیاں برسائی جاتی ہیں اوراگرپھربھی بجلی صارفین نہ ہٹیں توان کیساتھ مشتعل نوجوانوں یاسنگبازوں جیساسلوک کرکے اُن پرٹیرگیس اورمرچی گیس کے گولے داغے جاتے ہیں ۔آبی ذخائرسے مالامال جموں وکشمیربالخصوص وادی میں بجلی سپلائی کی جوصورتحال پائی جاتی ہے وہ حیران کن ہے کیونکہ بجلی پروجیکٹوں اوربجلی پیدوارکے لحاظ سے جموں کشمیر کے دریاNHPCکیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغیوں سے کم نہیں کیونکہ این ایچ پی سی کوایک چھوٹی سی کارپوریشن سے مالی اعتبارسے خودکفیل اورمنافع بخش ادارہ بنانے میں جموں وکشمیرکے قدرتی آبی ذخائر کاہی رول رہاہے ۔حقوق صارفین کے بارے میں کافی جانکاری رکھنے والے ایک قانون داں نے بتایاکہ بیرون ملکوں خصوصاً امریکہ ،برطانیہ اوریوری ممالک میں لوگ اپنے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پرحکومتوں اورمتعلقہ حکام کوعدالتوں میں گھسیٹ کرلے آتے ہیں ،اوروہاں نہ صرف یہ کہ اُنھیں انساف فراہم کیاجاتاہے بلکہ ارباب حل وعقدکی سرزنش کرنے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی یاناانصافی کے شکارہوئے صارف کوہرجانہ بھی دلوایاجاتاہے ۔مذکورہ قانون داں کامانناہے کہ جموں وکشمیر میں صارفین کی طرف سے انصاف کیلئے متعلقہ عدالتوں کارُخ نہ کرنے کی دوبنیادی وجوہات ہیں ۔اولاًیہ کہ انھیں خودکوحاصل حقوق کی جانکاری ہی نہیں اوردوئم یہ حصول انصاف کیلئے بھی اُنھیں پاپڑجھیلنے کااندیشہ رہتاہے۔

Comments are closed.