وادی میں کوروناوائرس کی دوسری لہر شروع پھر بھی لوگ بے فکر؛ متاثرین کی تعداد کے ساتھ ساتھ مرنے والوں میں بھی ہورہا ہے پھر اضافہ

سرینگر/26نومبر: وادی میں کوروناوائرس مسلسل پھیلتا جارہا ہے اوراموات بھی پھر سے بڑھ رہی ہے ۔ اگرچہ گزشتہ ایک دوہفتوں سے وائرس میں متاثرین کی تعداد کمی سامنے آرہی تھی اور اموات کی شرح بھی گھٹ رہی تھی تاہم اب پھر سے اس میں اضافہ ہونے لگا ہے اور کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد پھر بڑھ رہی ہے ۔ کرنٹ نیوزآف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر میں کوروناوائرس کی دوسری لہر شروع ہوچکی ہے جس کے نتیجے میں اب پھر سے وائرس سے متاثرین کی تعداد بڑھ رہی ہے اور اس مہلک وائرس سے مرنے والوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔تاہم لوگ اب زیادہ بے فکر ہورہے ہیں۔ پہلے پہل جب وادی میں کوروناوائرس کے معاملات کافی کم سامنے آرہے تھے تو لوگوں میں سخت خوف پیدا ہوا تھا ۔ ہیلتھ گائڈ لائنوں اور سرکاری ہدایت پر ہر کوئی سختی سے عمل کرتا دکھائی دے رہا تھا لیکن دھیرے دھیرے جتنے کیس بڑھتے گئے اُسی قدر لوگوں کے دلوں سے وائرس کا خوف نکلتا گیا اوراحتیاطی تدابیر پر لوگوںنے دھیرے دھیرے عمل کرنا چھوڑدیا ۔لوگ اب اس قدر بے خوف ہوچکے ہیں کہ نہ کسی جگہ سماجی دوری کا خیال رکھا جارہا ہے اور ناہی ماسک کا استعمال کیا جارہا ہے خاص کر شادی بیاہ کی تقریبات ، تعزیتی تقریبات اور دیگر سماجی پروگراموں میں لوگ باالکل ہی بے خبری کے عالم میں رہتے ہیں جس کے نتیجے میں یہ ڈیڈلی وائرس اور زیادہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے ۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں کووڈ19کے نتیجے میں جو تباہی ہوئی اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مہلک وائرس معمولی نہیں ہے بلکہ یہ ایک جان لیوا وائرس ہے جو کسی بھی عمر کے انسان کو اپنی لپیٹ میں لیکر موت کی آغوش میں پہنچاتا ہے ۔ لیکن وادی کشمیر میں ہر معاملے کو جس طرح لوگ ہلکا لے رہے ہیں اسی طرح لوگوںنے اس ’’ڈیڈلی‘‘ وائرس کو بھی معمولی سمجھ کر اس کے تئیں غفلت اور لاپرواہی برتنی شروع کی جو بھیانک ثابت ہورہا ہے ۔ ماہرین طب کا ماننا ہے کہ سردیوںمیں یہ وائرس زیادہ اثر دار ثابت ہوسکتا ہے کیوںکہ وادی کشمیر میں سردیوںکا موسم ایک لمبے عرصے تک رہتا ہے قریب آٹھ ماہ سردی کا اثر رہنے کے نتیجے میں یہ وائرس لوگوں کو زیادہ متاثر کرسکتا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ وادی کشمیر میں کئی برس پہلے سوائن فلو H1N1نے بھی جگہ بنالی ہے جس کے نتیجے میں ہر برس یہاں متعدد اموات سامنے آتی ہے ۔ یہ وائرس ہر برس سردیاں شروع ہونے کے ساتھ ہی پھر جنم لیتا ہے اور لوگوں کو اپنا شکار بنالیتا ہے تاہم گرمیوںمیں سوائن فلو ناکارہ ہوجاتا ہے لیکن کوروناوائرس اس سے مختلف ہے ۔ کووڈ19کا جراثوم ہر موسم اور ہر درجہ حرارت میں زندہ رہ سکتا ہے جس کی وجہ سے یہ وائرس سوائن فلو سے زیادہ مہلک ثابت ہورہا ہے ۔ ماہرین کی اگر مانیں تو اس وائرس کی دوسری لہر پیدا ہوگی جو پہلی لہر سے اور بھی زیادہ بھیانک اور خطرناک ہوسکتی ہے کیوں کہ پہلی لہر میں وائرس گنے چنے لوگوں کی وجہ سے پھیل رہا تھا لیکن اب یہ قریب قریب 60فیصدی سماج میں پھیل چکا ہے جن میں سے چالیس فیصدی افراد میں اگرچہ وائرس کی نشانیاںنظر نہیں آرہی ہیں لیکن دیگر افراد اس کے شکار ہوچکے ہیں ۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے ٹسٹ مثبت آرہے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ سات ماہ سے برابر چلتا آرہا ہے ۔ محکمہ ہیلتھ سروسز سے جڑے افراد اس وائرس سے لڑنے میں جی توڑ کوششیں کررہے ہیں لیکن نہ اب کورنٹائن مراکز میں جگہ ہے اور ناہی ہسپتالوں میں جگہ بچی ہے جس کے نتیجے میں اب سرکار نے بھی ہاتھ کھڑے کردئے اور اب جن لوگوں کے ٹسٹ پازیٹو آرہے ہیں ان کو اپنے ہی گھروں میں رہنے کی صلاح دی جارہی ہے ۔ یہاں تک کہ جن مریضوں کو اس وائرس سے بہت زیادہ خطرہ ہوتا ہے ان کو بھی اب داخل ہسپتال نہیں کیا جاتا الا یہ کہ مریض مرنے کی کگار پر پہنچ جاتا ہے جس کو آخری وقت میں ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جہاں نہ اس کیلئے وینٹی لیٹر موجود ہوتا ہے اور ناہی اس کو دینے کیلئے آکسیجن دستیاب ہوتا ہے جو مریضوں کے اموات کا باعث بن جاتا ہے ۔ ہسپتالوں میں ہر روز مریض دم توڑ دیتے ہیں جن میں عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ کم عمر یعنی جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں ۔ ان اموات کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ ہسپتالوں میں اب نازک مریضوں کیلئے بھی جگہ دستیاب نہیں ہے اور ناہی ان کی جان بچانے کیلئے ہسپتال عملہ سنجیدہ کوشش کرتا ہے ۔ جب بھی کسی نازک مریض کو ہسپتال پہنچایا جاتا ہے اس کو سب سے پہلے کوروناوائرس کے ٹسٹ کیا جاتا ہے اگر رپورٹ پازیٹو آئے تو اس کو کے قریب کوئی بھی نہیں بھٹکتا ایسے مریضوں کو ہسپتالوں میں مرنے کیلئے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ وادی کشمیر کے ہسپتالوں میں کووڈ19کے مریضوں کی صحتیابی کی شرح اگرچہ قابل اطمینان ہے لیکن صحتیاب ہونے والے مریض وائرس کے انفکشن کے پہلے مرحلے میں ہوتے ہیں جن مریضوں میں یہ وائرس جگہ بنالیتا ہے ان کی موت طے ہوتی ہے کیوں کہ یہ وائرس مریضوں کے پھیپڑوں کی رگ رگ میں اس قدر سرعت کرتا ہے کہ مریض کا بچنا ناممکن ہوجاتا ہے ۔ حال ہی میں ایسی خبریں بھی سامنے آئی ہے کہ کئی ترقی یافتہ ممالک میں یہ وائرس پھر سے اپنی قہر برسارہا ہے جس کی وجہ سے ان ممالک میں دوبارہ لاک ڈاون نافذ کیا جارہا ہے جبکہ ان ممالک میں اموات بھی بڑھ رہی ہے ۔ اس طرح ایسے ممالک میں وائرس کی دوسری لہر شروع ہوچکی ہے ۔ اسلئے اہلیان وادی کو بھی اس وائرس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اس کے بچائو کی تدابیر پر من و عن عمل کرنا چاہئے ۔ وادی کشمیر میں پہلے سے ہی حفظان صحت کا فقدان ہے سرکاری ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی کمی پہلے سے ہی ہے اس پر اس وائرس نے رہی سہی کسر پوری کردی رہی بات پرائیویٹ ہسپتالوں کی تو یہ لوگ مریضوں کا خون چوسنے کا کام کررہے ہیں پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے والے مریض شفایاب کم اور کنگال زیادہ ہوکر واپس جاتے ہیں ۔اسلئے ہمیں چاہئے کہ یہ بے فکری اور لاپرواہی چھوڑ کر اس وائرس سے بچنے کی فکر کرنی چاہئے تاکہ ہم اپنے اور اپنے اہل وعیال اور دیگر لوگوں کو بھی محفوظ رکھ سکیں ۔ زندگی ایک نعمت ہے جس کی قدر کرنا فرض اول ہے کسی بھی وبائی دور میں ہر انسان پر فرض ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی زندگی کو خطرے میں نہ ڈال دیں اسی لئے وبائی بیماری کو پھیلانے والوں کیلئے بھی ایک الگ قانون ہے ۔

Comments are closed.