جموں کشمیر میں تیز رفتار انٹر نیٹ 4Gکی بحالی کا مستقبل قریب میںکوئی امکان نہیں

انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کی کمیٹی کے اجلاس میںبی جے پی اور کانگریس اراکین الجھ پڑے

جموں کشمیر میں تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کی بحالی سے قومی سلامتی متاثر ہوگی/ داخلہ سیکرٹری

سرینگر/26نومبر/سی این آئی// جموں کشمیر میں تیز رفتار انٹر نیٹ 4Gکی بحالی کا مستقبل قریب میںکوئی امکان نہیں ہے کیونکہ انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کی کمیٹی کے اجلاس میںمعاملے پر بی جے پی اور کانگریس اراکین میں سخت بیان بازی کے بعد بی جے پی کے اراکین پارلیمان نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ بند پر بحث کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کی بحالی سے قومی سلامتی متاثر ہوگی ۔ سی این آئی مانیٹرنگ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور کانگریس کے اراکین پارلیمان کے مابین انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کی کمیٹی کے اجلاس میں ملک خصوصاً جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ بند کے سلسلے میں سخت بیان بازی ہوئی۔تین گھنٹے تک جاری رہنے والی اس میٹنگ میں بی جے پی کے اراکین پارلیمان نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ بند پر بحث کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں تیز رفتار انٹرنیٹ سروس کی بحالی سے قومی سلامتی متاثر ہوگی۔اراکین پارلیمان نے اس موضوع پر رائے دہندگی کا مطالبہ بھی کیا۔ تاہم پینل کے چیئرپرسن اور کانگریس کے رکن پارلیمان ششی تھرور نے ان اسے خارج کر دیا۔ تھرور نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا اور کمیٹی کو ووٹوں کے دوسرے دور سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہے۔بی جے پی کے ڈاکٹر نشی کانت دوبے اور کمیٹی کے رکن نے بھی جموں و کشمیر انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن بحث کی شدید مخالفت کی۔نشی کانت دوبے نے اوم بریلا کو ٹویٹ میں لکھا کہ ‘ایک بار پھر ششی تھرور قومی سلامتی کے بارے میں تبادلہ خیال کرنا چاہتے ہیں جو کہ تشویشناک ہے۔ لوک سبھا کے رول 270 میں کہا گیا ہے کہ حکومت اس دستاویز کو پیش کرنے سے انکار کر سکتی ہے کہ جس سے ریاست کے تحفظ یا مفاد کو خطرہ ہو۔’نشی کانت دوبے نے اگست میں بھی اوم بریلا کو ایک خط لکھا تھا جس میں انہوں نے ستمبر میں ہونے والی اس میٹنگ کی منسوخی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا ایجنڈا پارلیمنٹ کے قواعد کی خلاف ورزی ہے۔بعد میں لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے تمام پارلیمانی پینلز کے چیئرپرسن کو خط لکھا اور ان سے کہا کہ وہ قواعد کی بنیاد پر مضامین کا انتخاب کریں اور اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ ایوان عدالت میں زیر التواء معاملات پر بات نہیں کرتا ہے۔

Comments are closed.