بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹ شیٹ موضوع بحث

زیر تعلیم بچے ان کے والدین تذبذب کے شکار ، ماہرین اور سماجی کارکنوں کے تاثرات

کشمیر پریس سروس کا خصوصی رپورٹ

امتحانات سے متعلق بورڈ ا?ف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے اعلانات اورڈیٹ شیٹ اجرائ￿ کرنا عوامی اور سماجی حلقوں میںموضوع بحث ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور سماجی لیڈران کے علاوہ بچوں اور ان کے والدین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منسوخی دفعہ 370یعنی 5اگست2019سے زیر تعلیم بچے اسکولوں سے بالکل دور ہیں۔اگر چہ مارچ 2020میں اسکول کھل بھی گئے۔لیکن کوروناوائرس جیسی مہلک بیماری نے وادی کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور لاک ڈاون کے ابتدائی مرحلے میں اسکولوں کو ہی مقفل کردیا گیا جس سے تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور معطل ہوئیں اور بچے روایتی تعلیم وتربیت سے محروم ہوگئے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے کوڈ19کی کشیدہ صورتحال میں سرکاری وغیرسرکاری اسکول منتظمین کو ہدایت دی کہ وہ ا?ن لائن کلاسز کا ا?غاز کریں۔اساتذہ نے حسب ہدایت ا?ن لائن کلاسز شروع کئے لیکن سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے بچوں کی اکثریت اس پروگرام سے استفادہ نہ کرسکے اور یہ بات بھی طے ہے کہ بیشتر بچوں کے پاس موبائیل فون دستیاب نہیں تھے۔ کوروناوائرس کی موجودہ صورتحال کے پیش نظراَن لاک ہونے کے باوجود بھی 31اکتوبر 2020تک بند رکھا گیا۔زیر تعلیم بچوں اور ان کے والدین کا ماننا ہے کہ گذشتہ سال ان کی تعلیم بْری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان حالات میں بچوں کا امتحان لینا بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے کیونکہ بغیر تعلیم کے بچوں سے امتحان لینے سے اس کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتا ہے جبکہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بچوں کی صلاحیتوں اور جو کچھ انہوں نے اپنے مدرسین کے پاس پڑھا ہو گا کا امتحان ہوتا ہے لیکن وہ پڑھنے سے محروم رہے ہونگے تو کس چیز کا امتحان لیا جارہا ہے۔Formalityپورا کرنے سے وہ دوسرے کلاسوں میں جاسکتے ہیں لیکن وہ بے سود ہی ثابت ہوگا۔ان کا کہنا ہے کہ ا?جکل مقابلہ ا?رائی کادور ہے۔ا?ج بچے کا پاس ہونا کو ئی معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا منوانے سے ہی بچہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے زیر تعلیم دسویں اور بارہویں جماعت کے طلبہ نے کہا کہ ان کا 25فیصدی سیلبس بھی مکمل نہیں ہو پایا ہے اور وہ امتحانات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہے۔انہوں نے بورڈ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ امتحانی پرچوں میں خاصی رعایت دیکر امتحانات نومبر میں لئے جائیں یافی الحال ملتوی کرکے مارچ میں لئے جائیں۔انہوں نے کہا کہ ا?جکل competetion کا دور ہے اور اس مقابلہ ا?رائی میں نومبر امتحانات لینا فضول مشق ہے۔انہوں نے کہا کہ زیر تعلیم بچوں کے امتحانات صرف پاس کرنے تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ ان کیلئے نیچلی کلاسوں کے نصاب کو درسً پڑھانا لازمی بن گیا کیونکہ ا?ئندہ کے کلاسوں اور تقابلی امتحانات میں دسویں ،گیارہویں اور بارہویں جماعت کے مضامین اور نصاب کا اعادہ کرنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر رسمی طور امتحانات منعقد کرنے ہیں تو حکام کے سر سے ذمہ داریوں کا بوجھ اترے گا لیکن بچوں کے مستقبل کیلئے وہ کسی بھی صورت میں سود مند ثابت نہیں ہوگا۔اس لئے جلد بازی سے کام لینے سے پہلے مزید غور کرنا چاہئے تاہم اگر اب امتحانات لینا ہی طے ہے تو ان کے سیلبس میں 50فیصدی کی رعایت دینی چاہئے تاکہ بچے ذہنی کو فت کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے سماج کے اہم شخصیات ،ماہرین تعلیم اور اسکالروں سے تاثرات حاصل کئے ہیں اور ان شخصیات کے تاثرات امتحانات اور تعلیمی معیار کے حوالے سے تاثرات جاننے کی کوشش کی۔ادھربورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹ شیٹ اور زیر تعلیم بچوں و اْن کے والدین کی فکر مندی کے حوالے سے کشمیر پریس سروس نے بورڈ چیرپرسن وینا پنڈیتا سے بات کی تو موصوفہ نے بتایا کہ امتحانات منعقد کرنے کے حوالے سے کافی سوچ وچار کیا گیااور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امتحانات منعقد کرنے کا فیصلہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ حالات کے پیش نظر ہی بورڈ نے 30فیصدی رعایت کا اعلان کیا تھا۔ تاہم ماہرین اور بچوں کے والدین کے اسرار پر بورڈ منتظمین نے 40فیصدی رعایت دینے کا اعلان جاری کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امتحانات منعقد کرنے میں مزید وقت دیا جاتا ہے۔ لیکن دسمبر کے مہینے میں سردی کی لہر تیز ہوتی ہے جس میں امیدواروں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہیں اور اس معاملے کو مد نظر رکھتے ہوئے ماہ دسمبر سے پہلے ہی امتحانات مکمل کرنے کا فیصلہ لیا گیاہے۔ انہوں نے کہا کہ کوروناوائرس سے بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے امتحانی مراکز میں ایس او پیز پر سختی عمل کی جائے گی اور اس کیلئے امتحانی عملہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ سماجی دوریوں کو بنائے رکھنے اور ماسک پہنے بغیر کسی کو اجازت نہ دی جائے۔انہوں نے کہا کہ امتحانات کے حوالے سے دسویں اور بارہویں جماعت کے ڈیٹ شیٹ میں ایک ترتیب رکھی گئی ہے جس سے زیادہ گہماگہمی ممکن نہیں ہے۔ادھر پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن جموں وکشمیر کے چیرمین اور ماہر تعلیم جی این وار نے امتحانات اور تعلیمی معیار کے حوالے سے کہا کہ سماج میں تعلیم کو ایک منفرد مقام حاصل ہے اور اس بارے کوئی سمجھوتہ قابل قبول نہیں ہے کیونکہ تعلیم کیلئے ماہرین تعلیم اور شعبہ تعلیم سے منسلک اشخاص کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ تعلیم میں ہی سماج کی کامیابی مضمر ہے اور شعبہ تعلیم سے وابستہ افسران کو ہر قدم اٹھانے سے ماہرین (experts)سے رائے طلب کی جانی چاہئے۔تاکہ ہمارا تعلیمی نظام بہتری کی جانب گامزن ہوجائے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ ا?ف اسکول ایجوکیشن ،محکمہ تعلیم کے منتظمین اور پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن تعلیم کے ساتھ منسلک ہیں اور ایک ہی مشن پر مامور ہیںلیکن بدقسمتی یہ ہے ان شعبوں میں تال میل کا فقدان ہے۔انہوں نے کہا کہ ا?ئی اے ایس پرنسپل کمشنر ایجوکیشن نے شعبہ تعلیم میں کئی اہم تبدیلیاں لانے کی کوشش کی تھی لیکن اس طرح کا کام سرکار کو راس نہیں ا?ئی اور اور ان کی تبدیلی عمل میں لائی جو Mid session میں موزون نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ امتحانات میں40فیصدی چھوٹ دینایا ماس پروموشن بچوں مستقبل کیلئے سم قاتل ہے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ حکام کو تعلیم یا امتحانات کے حوالے سے ماہرین تعلیم اور سرکاری وغیر سرکاری منتظمین کی ایک منظم کمیٹی سے رائے ومشورے لینے کے بعد کوئی فیصلہ لینا چاہئے تھا کیونکہ یہ فیصلہ جات بچوں کے مستقبل کے ساتھ منسلک ہیں۔اگر اس میں زرا کوتاہی برتی جائے تو اس کا خمیازہ زیرتعلیم بچوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ میں پوزیشن حاصل کرنے والے سبھی بچے بین الاقوامی یا قومی سطح کے تقابلی امتحانات میں کامیاب نہیں ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم یا بورڈ افسران شاہی گدیوں پر براجماں ہوکر حکم نامے جاری کرتے ہیں۔لیکن زمینی سطح حالات اس کے بالکل برعکس ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے حالات ہر ایک کیلئے چشم کشا ہے۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ جو بچے تقابلی امتحانات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔وہ ان کی اپنی صلاحیتوں کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔بورڈ کی evaluationپر منحصر نہیں ہے اور بورڈ امتحانات پاس کرنے کے بعد بھی 80فیصدی بچیتقابلی امتحانات میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ زیر تعلیم بچوں کی تعلیم ،امتحانات یا مستقبل کے حوالے سے حکم نامے جاری کرنے سے پہلے ماہرین کی کمیٹی سے رائے طلب کی جائے تاکہ ہمارا تعلیمی نظام بہتری کی طرف گامزن ہوجائے اور ہماری نئی نسل کا مستقبل تابناک اور روشن ثابت ہوجائے۔ ادھر ٹیچرس فورم اور ایجیک کے سابق چیرمین اور ماہر تعلیم عبدالقیوم وانی نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ا?ف لائن امتحانات منعقد کرنے کیلئے ڈیٹ شیٹ اجرا ئ￿ کرناناانصافی پر مبنی ہے۔کیونکہ کوروناوائرس کی لہر جاری ہے اس دوران بچوں کا امتحان لینا ان کی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ ہے۔انہوں نے کہا کہ تعلیمی پالیسی کے مطابق ماس پروموشن کی گنجائش ہے اوراول جماعت سے نویں جماعت تک ماس پروموشن دی جائے تو یہ ان کے مستقبل کیلئے مفید ہے اور ان کا نیاتعلیمی سال ضائع نہیںہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے سماج کے بچے 5اگست 2019سے اسکولوں سے دور ہیں اور بچے لاک ڈاون اور نامساعد حالات کی وجہ سے پڑھائی کی طرف بھر پور دھیان دینے سے قاصر رہے ہیں اور امتحانات کا اعلان ان کیلئے کافی بھاری پڑگیا اور وہ ذہنی کوفت کے شکار ہوگئے ہیں۔انہوں نے کہاکہ انٹرنیٹ کی معقول دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے ا?ن لائن کلاسزسے بیشتر بچے مستفید نہیں ہوسکے۔انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے کہا کہ درس وتدریس کا عمل زیر تعلیم بچوں کیلئے ناگزیر ہے کیونکہ استاد اور شاگردوں کا روبر تعلیم وتربیت کے لئے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔انہوں نے کہا کہ وادی میں نومبر اور دسمبر کے مہینوں میں سردی کا قہر ہوتاہے اور امتحانات مناسب نہیں ہے اوران ایام میں بجلی کی ا?نکھ مچولی رہتی ہے جس کے نتیجے میں بچے محنت کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ابھی کوروناوائر س جیسی مہلک بیماری کی لپیٹ میں ا?نا طے ہے اورکہا کہ امتحانی مراکز اتنے مستحکم نہیں ہوتے ہیں جبکہ بچے ایس او پیز عمل نہیں کرسکتے ہیں۔اس اعتبار سے کوڈ کے چلتے امتحانات منعقد کرنا مناسب فیصلہ نہیں ہے اور اس حوالے سے زیر تعلیم بچوں کے والدین تذبذب کے شکار ہیں کیونکہ وہ صحت کے حوالے سے فکر مند ہیں۔انہوں نے کہاکہ تقابلی امتحانات کیلئے بچے اپنا ہدف خود ہی مقرر کرتے ہیں۔بورڈ امتحانات پر ان کی صلاحیتوں کا انحصار نہیں ہوتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بورڈ حکام کو فیصلہ لینے سے پہلے والدین ،سماجی کارکنوں ،ماہرین تعلیم اور تجربہ کاروں سے رائے طلب کرنی چاہئے تھی تاکہ کوئی مثبت فیصلہ سامنے ا?تا جس فیصلے سے زیر تعلیم بچے ذہنی کوفت کے شکار نہیں ہوجاتے۔انہوں نے کہا کہ امتحانات سے متعلق لئے گئے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے اور مارچ میں امتحانات منعقد کرکے بچوں کو اپنی ذہانت کالوہا منوانے کا موقعہ کیا جائے اور والدین کی فکرمندی بھی دور ہوسکے۔ ادھر شعبہ مذہبی تعلیم کشمیر یونیورسٹی کے سابق سربراہ ،سابق ڈین سنٹرل یونیورسٹی کشمیر اور معروف اسکالر ڈاکٹر حمید نسیم رفیع ا?بادی نے بورڈ کی جانب سے امتحانات منعقد کرنے کا فیصلے سے زیر تعلیم بچے اور اْن کے والدین تذبذب کے شکار ہیں لیکن امتحانات منعقد کرنا بھی لازمی امر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوروناوائرس کی وجہ سے حالات تشویشناک ہیں۔ لیکن ان حالات میں شادیوں کی تقریبات اور بازاروں گہماگہمی دیکھنے کوملتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ والدین کی فکر و تشویش برحق ہے لیکن تعلیمی سال بچانے کیلئے امتحانات میں بچوں کا حصہ لینا ناگزیر بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرامتحانی مراکز میں جاری کردہ ایس او پیز پرعمل کیا جائے تو ان حالات امتحانات منعقد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ جن علاقوں میں تعلیمی اداروںکا انفاسٹریکچر بہتر ہوگاوہاں امتحانی مراکز قائم کرکے ایس او پیزکے تحت امتحانات لئے جاسکتے ہیں۔تاہم جن علاقوں میں امتحانی مراکز میں سہولیات میسر نہیں ہونگے ان علاقوں کے بچوں کا ا?ن لائن امتحان لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انسانی صحت بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اور امتحانات میں شامل ہونے والے بچوں کے صحت کا خیال رکھنا اولین ترجیحات میں شامل ہونا چائیں۔انہوں نے کہا کہ امتحانات بچوں کو پڑھائی کی طرف توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کرتے ہیں اس لئے سٹیٹ بورڈ ا?ف اسکول ایجوکیشن کا فیصلہ بجا ہے لیکن امتحانی مراکز میں انتظامات کو بہم رکھنا اور ایس او پیز کو بروئے کار لانا لازمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ کوڈ۔19کے بیچ بچوں کی پڑھائی کافی متاثر ہوئی ہے جس سے بچے ذہینی کوفت کے شکار ہے۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ بورڈ منتظمین رعایتی طرز عمل اپنائے۔ انہوں کہا کہ زیر تعلیم بچوں کے ساتھ ان حالات میں سختی کے بجائے نرمی برتی جائے۔انہوں کہا کہ ماس پروموشن کا فیصلہ کسی بھی طرح ثمر ا?ور نہیں ہوسکتا ہے بلکہ امتحانات بچے کی صلاحیتوں کو پرکھنے کیلئے ایک اہم ویسلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے بیچ سیلبس میں تفاوت اور رعایت دینے کا فیصلہ زیر تعلیم بچوں کے حق میں مناسب اور ان کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بورڈ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ امتحانی مراکز میں ایسے انتظامات رکھیںجس سے ب بچے امتحانات میں خوش اسلوبی سے حصہ لے سکیں اور ان کے صحت پر بھی کوئی بْرا اثر نہ پڑیں۔ادھرمعروف اسکالر ، منتظم اور شاہ رسول میموریل سوپور کی وائس چیرپرسن بسیمہ اعجاز نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتا یا کہ 05اگست 2019 اورکورونا وائرس سے اسکولوں میں درس و تدریسکا عمل بْری طرح متاثر ہوا۔ تاہم تعلیمی پالیسی کے مطابق بچوں کو ا?ن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیم و تربیت دی گئی۔ اگر چہ بچوں کی ایک خاصی تعداد سے مستفید نہیں ہوسکے تاہم اسکولوں کے متعلقہ اساتذہ نے انٹرنیٹ کی مختلف سوشل ویب سائٹس پر اپنے لیکچرر دستیاب رکھے تھے جس سے عام بچے مستفید ہوئے۔ انہوں نے ماس پروموشن کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بچوں کے تعلیمی رجحان پر بْرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ انہوں نے بورڈ ا?ف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے امتحانات منعقد کرنے کے حوالے سے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ امتحانات لینا ناگزیر ہے لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر جاری کردہ ڈیٹ شیٹ میں ترمیم بھی لازمی ہے۔ انہوں نے امتحانات کے حوالے سے بچوں کو مزید چند ہفتے کا وقت فراہم کیا جائے تاکہ وہ اْن کو مزید محنت کرنے کا موقعہ فرہم ہوگا۔انہوں کہا کہ سیلبس میں رعایت اگر چہ وقتی طور بچوں کیلئے سود مند ثابت ہوگی۔ لیکن اس کے دوررس نتائج برا?مد نہیں ہونگے کیونکہ تقابلی امتحانات میں بچوں کو نئے سرے سے چھوٹے ہوئے سیلبس اور مضامین کو ووبارہ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوگی۔انہوں نے بورڈ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کوروناوائرس جیسی مہلک بیماری کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے امتحانی مراکز میں ایس او پیز سختی سے اپنائی جائے اور امتحانی مراکز میں شامل ہونے والے امیدواروں کیلئے تمام انتظامات رکھیں جائے تاکہ امیدوار امتحانات میں حصہ لے کر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں اور ان کی صحت کا تحفظ بھی یقینی بن سکے۔ ادھرمعروف سماجی کارکن اور ٹی وی پینلسٹ انعام النبی نے امتحانات منعقد کرنے کے فیصلے کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ امتحانات بچوں کیلئے لازمی امر ہے۔انہوں نے کہا کہ امتحانی عمل سے ہی بچے پڑھائی کی طرف توجہ مرکوز کرنے مجبور ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 5اگست اور لاک ڈاون سے تعلیم بْری متاثر ہوئی تاہم ا?ن لائن کلاسز کے ذریعے بچوں نے تعلیم حاصل کی ہے۔اگر چہ انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے تعلیم متاثر ہوئی۔تاہم ا?جکل بچے گھر میں بھی اپنوں سے مدد حاصل کرکے سیلبس کو مکمل کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بورڈ حکام نے 40فیصدی رعایت دی ہے تاہم یہ فیصلہ بچوں کے مفاد میں ہے لیکن اس کے نتائج بھی مستقبل قریب میںسود مند ثابت نہیں ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی یا قومی سطح کے امتحانات کیلئے بچے ذہانت اور محنت کام ا?تی ہے اور کہا کہ حال ہی میں NEETامتحانات میں شاندار ہمارے بچوں نے شاندار کامیابی کا مظاہرہ کیا اور خوش نصیبی یہ ہے کہ حافظ قرا?ن نے بھی اپنی ذہانت کاسکہ جمادیا۔ انہوں نے کہا کہ تین دہائیوںسے ہمارے بچے نامساعد حالات سے ہی گذرتے ہیں اس لئے زیر تعلیم بچوں کو گھر میں تعلیم حاصل کرنے پر اکتفا کرنا چاہئے کیونکہ نامساعد حالات کی وجہ یہاں کے اسکول بیشتر ایام میں بند رہتے ہیں۔اس لئے ’’اپنی مدد ا?پ کرو ‘‘کے مصداق حصول تعلیم کیلئے تکدو کرنی ہے۔انہوں نے بورڈ حکام اور محکمہ تعلیم کے منتظمین پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کیلئے معقول لائحہ عمل ترتیب دیں تاکہ ہماری نئی پوداس دور پْرا?شوب میں بھی اپنی تعلیمی کرئیر بچاسکیں گے۔ادھرمعروف اسکالر اور ماہر تعلیم پروفیسر عبدالرحمان نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ زیرتعلیم بچوں کیلئے امتحانات لینے کا فیصلہ بہرحال خوش ا?ئند ہے۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال ہر ایک کیلئے چشم کشاہے۔اس لئے امتحانی مراکز میں ایس او پیز پر عمل کر ناناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ حقیقت پرمبنی ہے کہ والدین اور زیرتعلیم بچوں کے ا?رائ￿ امتحانی فیصلہ کے حوالے سے مختلف ہیں تاہم یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچے امتحانی عمل سے ہی تعلیم کی راغب ہوجاتے ہیں۔انہوں نے ماس پرموشن کو بچوں کے کرئیر کیلئے سم قاتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طرز عمل سے بچے ذہنی انتشار کے شکار ہوجاتے ہیں اور وہ ا?ئندہ بھی ماس پرموشن پر تکیہ رکھتے ہوئے تعلیم کی طرف دلچسپی نہیں دے سکیں گے۔البتہ جاری کردہ ڈیٹ شیٹ میں ترمیم کرکے بچوں پڑھنے کیلئے مزید موقعہ فراہم کیا جائے تاکہ امتحانات میں حصہ لینے کیلئے بہ ا?سانی تیار ہوجائیں گے۔انہوں نے بورڈ حکام سے کہا کہ وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے امتحانات کو ا?سان بناتے ہوئے بچوں کی قابلیت کا محاسبہ کریں اور پاس ہونے کیلئے پرچوں کی جانچ پڑتال کے دوران انسانی قدروں کا خیال رکھیں اور رعایت دینے میں کوتاہی نہ برتی جائے۔تاکہ ذہنی کوفت کے شکار بچے مایوس نہ ہوجائیں اور امتحانی پرچے ا?سانی پر ہی مبنی ہونے چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تقابلی امتحانات کیلئے بچوں کی محنت کام ا?تی ہے۔انہوں نے کہا کہ پڑھنے والا بچہ کہیں اپنی دلچسپی سے تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے حالات اب اس نتیجہ پہنچ چکے ہیں کہ بچے گھر بیٹھے ہی حصول تعلیم کیلئے اپنی محنت جاری رکھیں ۔ادھرآرٹی آئی وسماجی کارکن راجا مظفر نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں جہاں زندگی اور موت کی کشمکش ہو وہاں امتھانات منعقد کرنا احمقانہ فیصلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ سرکار کو چاہئے کہ وہ انٹرنیٹ کی 4جی سروس بحال کریں تاکہ زیر تعلیم بچوں ا?ن لائن بھی امتحانات دے سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں امتحانات منعقد کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔ایک طرف کوروناوائرس کا خوف برقرار ہے جس کی وجہ بچوں کے والدین کافی فکر مند ہیں اور وہ بچوں کو ان حالات میں امتحانی مراکز کی طرف بھیجنے میں ڈر محسوس کرتے ہیں۔ان کے پاس بچوں کی صحت کو پہلی ترجیح ہے۔انہوں نے کہا کہ 5 اگست کے بعد کوروناوائرس کے بیچ درس وتدریس عمل کا مکمل طور متاثر ہوا اور بچوں کا سلیبس ادھورا رہ گیا جس کے نتیجے میں بچے امتحانات میں حصہ لینے کیلئے تیار نہیں ہیں۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ Multiple choiceسوالات سے ہی بچوں کی قابلیت اور ذہانت کی جانچ پڑتال کی جائے جس سے ان کا نیاتعلیمی سال بھی ضائع نہ ہوجائے اور ان کی قابلیت بھی سامنے ا?ئے۔انہوں نے کہا کہ امتحانی مراکز میں ایسی سہولیت میسر نہیں ہوتی ہے کہ بچے ایس او پیز پر عمل کرسکیں۔اس لئے ا?ن لائن امتحانات لئے جائیں۔انہوں نے بورڈ حکام پر ضرور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کے مستقبل کو بچانے کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات کے تناظر میں ان کی صحت کا خیال رکھا جائے۔ایسا نہ ہو کہ بچے امتحانات کی ا?ڑمیں کورناوائرس جیسی مہلک بیماری میں مبتلاہوجائیں ۔ادھر ماہر تعلیم اور گرین ویلی ایجوکیشنل انسٹی چیوٹ کے سربراہ محمد یوسف وانی نے متحانات کے حوالے سے کہا کہ امتحانات لینے کا فیصلہ قابل تقلید ہے اور 40فیصدی چھوٹ دینا بھی ایک خوش ا?ئندقدم ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بات عیاں وبیاں ہے کہ5اگست یا کوڈ میں لاک ڈاون کی وجہ سے اسکول مقفل رہے تاہم اساتذہ نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ا?ن لائن کلاسز کے ذریعے بچوں کا سیلبس مکمل کرنے کی کوشش کی۔جس سے زیر تعلیم بچے امتحانات میں حصہ لینے کے اہل ثابت ہونگے۔انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کے حالات میں ہماری نئی نسل کو اپنی تعلیم پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے اور تمام چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے امتحان کیلئے رہنا ہی ہوگا۔انہوں نے بورڈ حکام پرزور دیتے ہوئے کہا کہ امتحانات منعقد کئے جائیں لیکن موجودہ صورتحال کے پیش نظر ایس او پیز پر عمل کی جائے۔تاکہ کوروناوائرس کے خطرات سے بچے محفوظ رہ سکیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر ان حالات میں امتحانات منعقد نہیں کئے جائیں تو مستقبل قریب میں اس کااثر براہ راست زیر تعلیم بچوں پر ہی مرتب ہوگا اور ان مستقبل دائو پر لگ جائے گا۔انہوں نے کہا کہ یہاں کے حالات کا یہی تقاضا ہے کہ بروقت امتحان منعقد کئے جائیں۔ادھرماہر تعلیم اور جموں و کشمیر ٹیچرس فورم کے صدر شوکت احمدبٹ نے امتحانات کے حوالے سے جاری ڈیٹ شیٹ کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیٹ شیٹ بروقت اور برمحل ہے۔ انہوںنے کہا کہ کورونا وائرس کے بیچ لاک ڈائون یا ان لاک کے دوران اساتذہ نے زیر تعلیم بچوں کو ا?ن لائن یا کیمونٹی سنٹروں میںپڑھانے میں خوب دلچسپی کا مظاہر ہ کیا انہوں نیکہا کہ اساتذہ نے براہ راست بچوں کو درس دیایا اپنے لیکچرسوشل میڈیا پر دستیاب رکھے جبکہ کیمونٹی سنٹروں میں اساتذہ نے جانفشانی سے بچوں کی تعلیم و تربیت کی اس اعتبار سے بچوں کا امتحان لینا ناگزیر بن گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کی اکثریت امتحان میں حصہ لینے کے حق میں ہیں۔ جبکہ کند ذہن اور تعلیم کی طرف کی کم دلچسپی رکھنے والے بچے ماس پروموشن پر تکیہ رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ماس پروموشن بچوںکے مستقبل کیلئے سم قاتل ہے۔انہوں نے بورڈ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ امتحانی مراکز میں ایس او پیز کا خاص خیال رکھا جائے تاکہ بچوں کی صحت متاثر ہونے سے بچ جائیں۔ ادھرماہر تعلیم اور ریٹائرڈ پرنسپل عبدالرحمان انتونے کے پی ایس کو بتایا کہ موجودہ صورتحال میں امتحانات منعقد کرنے سے بچوں کی صلاحیتوں کی جانچ پڑتال ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچوں نے اسکولوں کا رْخ ہی نہیں کیا ہوگا اور ایک سال سے درس و تدریس کا کام معطل رہا ہوگا۔ توان حالات میں امتحانات میں منعقد کرنا ایک فضول مشق ہی ثابت ہوگی۔ انہو ں نے کہا کہ مرتب شدہ نصاب میں چھوٹ دینا مزید بے معنی اور بے سود ہیں۔انہوں نے کہا ان امتحانات سے بچے ذہنی کوفت اور نفسیاتی دبائو کے شکار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوڈ۔19کی وجہ سے لوگوں میں اضطراری اور اضطرابی کیفیت طاری ہونے کے ساتھ ساتھ مالی و اقتصادی بحران کے شکار ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امتحانات کو حالات سدھرنے تک ملتوی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔تاکہ ہماری نئی نسل اس کوفت سے نجات حاصل کرسکیں۔

Comments are closed.