وادی میں پیاز کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ : 70روپے سے 80روپے فی کلو کے حساب سے فروخت

سرینگر/26اکتوبر: وادی میں پیاز کی قیمتوںمیں ہوش رُبا اضافہ سے عام لوگوں کی مشکلات میں اور اضافہ ہوا ہے اس پر ستم ظریفی یہ کہ ایل جی انتظامیہ بھی اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہی ہے ۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق کورونا وبا کے قہر سے بچنے کی کوشش میں جہاں لاک ڈاؤن نے اقتصادی ترقی کی رفتار کو دھیما کر دیا وہیں اشیاء ضروریہ کی بڑھتی قیمتوں سے مہنگائی کی مار نے عام لوگوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ گزشتہ ماہ سے روز مرہ کی ضرورت کی اشیاء اور سبزی کی قیمتوں میں مسلسل ہو رہے اضافے نے اب حالات کے اور مشکل ہونے کا اندیشہ پیدا کر دیا ہے۔ آلو کے بعد اب پیاز کی قیمتوں میں بیتحاشہ اضافے نے عام افراد کے گھر کا بجٹ بگاڑ دیا ہے۔بھارت کی جی ڈی پی کے ریکارڈ سطح تک غوطہ لگانے کے بعد اب جہاں ملک کی اقتصادی حالت اور ترقی کی رفتار کو لیکر ماہرین طرح طرح کے خطرے ظاہر کر رہے ہیں وہیں بڑھتی مہنگائی کا سیدھا اثر اب اشیاء ضروریہ کی قیمتوں پر بھی نظر آنے لگا ہے۔ گزشتہ ماہ سے راشن کے سامان اور سبزی کی قیمتوں میں مسلسل ہو رہے اضافے کے بعد اب مہنگائی کی مار آلو اور پیاز کی قیمتوں پر پڑی ہے۔وادی کشمیر میں آلو پچاس سے 60روپے فی کلو جبکہ پیاز 70روپے سے 80روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے ۔ حال یہ ہے کہ غریب طبقہ اب اپنے گھر کی ضرورت کے لیے ایسی پیاز بھی خریدنے کو مجبور ہے جسے عام طور پر چھانٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔ وہیں سماج کا مڈل کلاس طبقہ بھی آلو اور پیاز کی بڑھی ہوئی غیر معمولی قیمتوں کے سبب ضرورت سے بھی کم استعمال کرکے گھر کے بجٹ کو سنبھالنے کی کوشش کر رہا ہے۔وہیں ماہرین کا ماننا ہے کہ کورونا قہر نے دنیا کے ہر ملک کی اقتصادی حالت کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن ہندوستان جیسے بڑی اور غریب آبادی والے ملک میں اس کا اثر زیادہ نظر آ رہا ہے جو آنے والے دنوں کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کے منفی ہونے کے اثرات کاروبار اور روزگار پر نظر آنے لگے ہیں ایسے میں بڑھتی مہنگائی کی دوہری مار عوام پر پڑنا لازمی ہے۔وادی کشمیر میں ذخیرہ اندوزوںنے پیاز کو اپنے گوداموںمیں بندکرنا شروع کردیا ہے جس کی وجہ سے پیاز کی مانگ اور بڑھ رہی ہے اورقیمتوںمیں بھی اور زیادہ اضافہ ہورہا ہے ۔ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں خاص کر سبزی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کے باوجود بھی جموں کشمیر کی لفٹنٹ گورنر انتظامیہ اس طرف کوئی دھیان نہیں دے رہی ہے

Comments are closed.