خاندانی حکمرانی اور بدعنوانی کے خاتمے کے بعد جموں کشمیر کے کچھ لوگ پریشان ; دفعہ 370کی بحالی کیلئے ایک چین کی مدد کی باتیں کر رہا ہے اور دوسری کہتی ہے کہ ترنگا نہیں اٹھائوں گی / ریڈی

سرینگر/24 اکتوبر: مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے جموں وکشمیر کے سابق وزیر اور پی ڈی پی رہنما محبوبہ مفتی کے بیان پر ردعمل کرتے ہوئے بتایا کہ خاندانی حکمرانی اور بدعنوانی کے خاتمے کے بعد کچھ لوگ مشتعل ہیں اور اسی وجہ سے وہ ایسی زبان استعمال کرتے ہیں ۔ انہو ں نے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد خطے میں امن کا ماحول قائم ہوا جس کو مقامی سیاسی پارٹیاں برداشت نہیں کر پا رہی ہے ۔ سی این آئی مانیٹرنگ کے مطابق آئی ٹی بی پی کے یوم تاسیس کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مرکزی وزیر مملکت برائے امور داخلہ کشن ریڈی نے کہا کہ ملک کے عوام اور جموں و کشمیر کے عوام سن رہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد ، جموں و کشمیر کی ترقی کس راہ پر گامزن ہے؟ یہ مشہور ہے۔ خاندانی حکمرانی اور بدعنوانی کے خاتمے کے بعد ، کچھ لوگ پریشان ہیں ، وہ اس پریشانی کی وجہ سے بول رہے ہیں۔کشن ریڈی نے کسی بھی رہنما کا نام لئے بغیر کہا کہ جموں و کشمیر کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ ہم جموں وکشمیر میں آرٹیکل 370 چین کے تعاون سے لائیں گے۔ دوسرے رہنما کا کہنا ہے کہ ہم ہندوستان کا ترنگا پرچم نہیں اٹھائی گی ۔ یہ لوگ مکمل طور پر نازک ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کشمیر میں حکومت نہیں کی ، انہوں نے حکمرانی کی۔ کروڑوں کروڑوں روپے جو جموں و کشمیر کے عوام کو جانا پڑے وہ نہیں گئے ، ریاست میں ترقی نہیں ہوئی ہے نہ بدعنوانی کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ لوگ اب بالکل پریشان ہیں۔نہوں نے کہا کہ جموں کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمہ کے بعد خطے میں امن کا ماحول قائم ہوا جس کو مقامی سیاسی پارٹیاں برداشت نہیں کر پا رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سیاست دان جس معاملے کو لیکر لوگوں کا استحصال کر رہے تھے آج تک اس کو ختم کر دیا اور جموں کشمیر کے عوام نے راحت کی سانس لی جو اب ان سیاستدانوں سے برداشت نہیں ہو رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب زیادہ دیر تک جموں کشمیر کے عوام کو بے قوف نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ لوگوں کو سب کچھ سمجھ میں آچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی سرکار نے جموں کشمیر میں دفعہ 370کو ہٹاکر تعمیر ق ترقی کی راہیں ہموار کی گئی اور نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے نئے مواقع دستیاب کرائیں گئے ہیں ۔

Comments are closed.