محبوبہ مفتی کے بیان سے کشمیری عوام کے سوچ کی ترجمانی ہوتی ہے; جب تک جموںوکشمیر کا درجہ بحال نہیں کیا جاتا ، مرکز اور کشمیر ی عوام کے درمیان آئینی رشتہ مفقود رہے گا :/سوزؔ‘

سرینگر/24 اکتوبر: سابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز ؔ نے ’’پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے بیان کو حقیقت پر مبنی قرار دیتے ہوئے اس بیان کا خیر مقدم کیا ہے ۔ سی این آئی کوپریس کے نام جاری اپنے ایک بیان میںسابق مرکزی وزیر پروفیسر سیف الدین سوز نے کہا کہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ریاست کا جھنڈا ہمیشہ یونین کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ لہراتا رہا ہے۔ اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے پہلے ایوان اسمبلی کے اُس وقت کے لیڈر شیخ محمد عبداللہ نے آئین ساز اسمبلی کے معزز اراکین کی وساطت سے کہا تھا کہ کشمیر کا جھنڈا دراصل کشمیر کی سیاسی جدوجہد کا غماز ہے اور یہ ہمیشہ قومی جھنڈے کے ساتھ ہی لہرتا رہے گا!انہوں نے کہا کہ اس پس منظر میں محبوبہ مفتی کے دعویٰ کی دلیل کشمیریوں کی جدوجہد ہے۔ پس مودی حکومت کا ریاست کا درجہ ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست کے جھنڈے کو کالعدم کرنا آئینی اور قانونی لحاظ سے غلط ہے۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ جب تک مودی حکومت ریاست کی پوزیشن بحال کر کے دفعہ 370 کا اثر و نفوذ قائم نہیں کرتی، تب تک یہ توقع رکھنا کہ وزیر اعظم مودی کے ساتھ قومی آہنگی کیلئے کشمیر کے لوگ بھی کھڑا ہوںگے، نہایت ہی ناقابل عمل نظریہ ہے!اس پس منظر میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگ اس امر پر بھی غور کریں کہ دُنیا کے معروف دانشور جیسے امریکہ کے نوم چومسکی (Noam Chomsky) اور سپین کے جوہان گلتونگ ( Johan Gultang) ایسا کیوں سوچتے ہیں کہ کشمیر ایک بڑا قید خانہ ہے اور سارے کشمیری اس کے قیدی ہیں!انہوںنے مزید کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ آج نہیں تک کل مرکزی حکومت کو کالعدم کی گئی آئین کی دفعہ 370 یا اس کے متبادل کو بحال کرنا ہی پڑے گا ،ورنہ مرکز اور ریاست کے درمیان آئینی رشتہ نا ہموار اور غیر متوازن رہے گا۔‘‘

Comments are closed.