دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات سے متعلق اعلانات موضوع بحث ؛ زیر تعلیم بچے اور ان کے والدین تذبذب کے شکار ،فی الحال ملتوی کرنے یا سیلبس میں50فیصدی کی رعایت کا مطالبہ

سرینگر /22اکتوبر / کے پی ایس: دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات سے متعلق بورڈ آف اسکول ایجوکیشن کی جانب سے اعلانات موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سیاسی اور سماجی لیڈران کے علاوہ بچوں اور ان کے والدین نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ منسوخی دفعہ 370یعنی 5اگست2019سے زیر تعلیم بچے اسکولوں سے بالکل دور ہیں ۔اگر چہ مارچ 2020میں اسکول کھل بھی گئے ۔لیکن کوروناوائرس جیسی مہلک بیماری نے وادی کشمیر کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا اور لاک ڈاون کے ابتدائی مرحلے میں اسکولوں کو ہی مقفل کردیا گیا جس سے تعلیمی سرگرمیاں مکمل طور معطل ہوئیں اور بچوں روایتی تعلیم وتربیت سے محروم ہوگئے ۔انہوں نے کہا کہ محکمہ تعلیم نے کوڈ19کی کشیدہ صورتحال میں سرکاری وغیرسرکاری اسکول منتظمین کو ہدایت دی کہ وہ آن لائن کلاسز کا آغاز کریں ۔اساتذہ نے حسب ہدایت آن لائن کلاسز شروع کئے لیکن سست رفتار انٹرنیٹ کی وجہ سے بچوں کی اکثریت اس پروگرام سے استفادہ نہ کرسکے اور یہ بات بھی طے ہے کہ بیشتر بچوں کے پاس موبائیل فون دستیاب نہیں تھے۔ کوروناوائرس کی موجودہ صورتحال کے پیش نظراَن لاک ہونے کے باوجود بھی 31اکتوبر 2020تک بند رکھا گیا۔زیر تعلیم بچوں اور ان کے والدین کا ماننا ہے کہ گذشتہ سال ان کی تعلیم بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور ان حالات میں بچوں کا امتحان لینا بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہے کیونکہ بغیر تعلیم کے بچوں سے امتحان لینے سے اس کا بنیادی مقصد فوت ہوجاتا ہے جبکہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بچوں کی صلاحیتوں اور جو کچھ انہوں نے اپنے مدرسین کے پاس پڑھا ہو گا کا امتحان ہوتا ہے لیکن وہ پڑھنے سے محروم رہے ہونگے تو کس چیز کا امتحان لیا جارہا ہے ۔Formalityپورا کرنے سے وہ دوسرے کلاسوں میں جاسکتے ہیں لیکن وہ بے سود ہی ثابت ہوگا ۔ان کا کہنا ہے کہ آجکل مقابلہ آرائی کادور ہے ۔آج بچے کا پاس ہونا کو معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ اپنی قابلیت اور ذہانت کا لوہا منوانے سے ہی بچہ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتا ہے ۔ اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے پرائیویٹ اسکول میںزیر تعلیم دسویں جماعت کی طالبہ فرقان سجاد نے کہا کہ کوڈ 19کی وجہ سے ان کا 25فیصدی سیلبس بھی مکمل نہیں ہو پایا ہے اور وہ امتحانات میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہے ۔انہوں نے بورڈ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یا تو 50فیصدی کی رعایت دیکر امتحانات نومبر میں لئے جائیں یافی الحال ملتوی کرکے مارچ میں لئے جائیں ۔فرقان سجاد کی بہن ریحانہ ولی نے ان کی حمایت میں کہا کہ آجکل competetion کا دور ہے اور اس مقابلہ آرائی میں نومبر امتحانات لینا فضول مشق ہے ۔انہوں نے کہا کہ زیر تعلیم بچوں کے امتحانات صرف پاس کرنے تک محدود نہیں رہے ہیں بلکہ ان کیلئے نیچلی کلاسون پڑھانا لازمی بن گیا کیونکہ آئندہ کے کلاسوں اور تقابلی امتحانات میں دسویں ،گیارہویں اور بارہویں جماعت کے مضامین اور نصاب کا اعادہ کرنا پڑتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر رسمی طور امتحانات منعقد کرنے ہیں تو حکام کے سر سے ذمہ داریوں کا بوجھ اترے گا لیکن بچوں کے مستقبل کیلئے وہ کسی بھی صورت میں سود مند ثابت نہیں ہوگا۔اس لئے جلد بازی سے کام لینے سے پہلے مزید غور کرنا چاہئے تاہم اگر اب امتحانات لینا ہی طے ہے تو ان کے سیلبس میں 50فیصدی کی رعایت دینا چاہئے تاکہ بچے ذہنی کو فت کے شکار ہونے سے بچ جائیں گے ۔ادھر کے پی ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بارہویں جماعت میں زیر تعلیم طالبہ کے بھائی توصیف احمد نائیکو نے امتحانات کے حوالے سے کہا کہ یہ بورڈ حکام کی جانب سے زیرتعلیم بچوں کے ساتھ سراسر زیادتی اور ناانصافی ہے ۔کیونکہ بچے رواں اور سال رفتہ میں براہ راست تعلیم وتربیت سے محروم رہے ہیں اور یہ اعلانات جلد بازی پر مبنی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز بے معنی اور بے مقصد تھے کیونکہ درس وتدریس کیلئے استاد اور شاگر د کا روبرو ہونا ناگز یر ہے ۔اس لئے انہوں نے بورڈ حکام پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ روایات سے ہٹ کر مارچ میں امتحانات لینے کی کوشش کریں تاکہ اس وقت تک بچے اپنا سیلبس پوراکرسکیں گے ۔

Comments are closed.