کاہچرائی چرواہوں کیلئے مخصوص اراضی ؛ خود غرض افراد جاگیر سمجھ کر قبضہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے ہیں
انتظامیہ ،علمائے کرام اور سماج کے ذمہ دار افراد خاموش تماشائی کیوں ؟ معاملہ غور طلب
سرینگر /2اکتوبر/کے پی ایس : کاہچرائی چرواہوں کیلئے مخصوص اراضی ہے جس پر قبضہ کرنا قانونی اور شرعی طور جرم ہے ۔کیونکہ جس طرح خالق کائنات نے انسانوں کی رہائش اور رزق کیلئے زمین کی نوعیت الگ الگ رکھی ہے اسی طرح بے زبانوں کو چرنے کیلئے مخصوص اراضی رکھی ہے جس کو عام اصطلاح میں کاہچرائی کہتے ہیں لیکن سماج کے خود غرض افرادکاہچرائی کو جاگیر سمجھ کر قبضہ کرنے میں کوئی فروگذاشت نہیں کرتے ہیں ۔ حالانکہ کاہچرائی پرقبضہ کرنا شرعی اور قانونی طور سخت جرم قرار دیا گیا ہے اور واضح کیا جاتا ہے کہ کاہچرائی چرواہوں کا حق ہے انسانوں کا اس مخصوص زمین کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے ۔یہاں تک عبادت گاہیں بشمول مساجد ،درسگاہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے ۔لیکن ان تمام احکامات اور پابندیوں کو بالائے طاق رکھ کر ود غرض افراد بلا ججک کے اس خط اراضی پر قبضہ کرتے ہیں ۔انتظامی سطح پرمحکمہ مال کی نگرانی میں دوسری قسم کی زمینوں کاہچرائی ہوتی ہے لیکن محکمہ مال اس حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔اتنا ہی نہیںبلکہ بساواقات محکمہ ہذاکے افسران واہلکاراں کی پشت پناہی سے ہی اس پر قبضہ کیا جارہا ہے اورباضابطہ طور پٹواری ریکارڈ میں ان افراد کے نام زمین کی جاتی ہے ۔جبکہ علمائے کرام بھی کاہچرائی کی شرعی اعتباریت کے متعلق زیادہ تر جانکاری فراہم کرنے کی طرف توجہ مبذول نہیں کرتے ہیں اور سماج کے ذمہ دار بھی کاہچرائی پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کبھی بھی آواز بلند نہیں کرتے ہیں بلکہ اس کو مال غنیمت سمجھ کر کھلی ڈھیل دی جاتی ہے ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے وادی کے ممتاز اسکالر ،KAS آفیسراور تحصیلدار ڈنگی وچھہ سجاد رسول شاہ سے بات کی تو موصوف نے کاہچرائی کے تاریخی اور قانونی پس منظر میں بتایا کہ کاہچرائی پر کسی بھی صورت میں کوئی بھی شخص قبضہ نہیںکرسکتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ اگر چہ لارنس بندوبست میں کئی ترامیم ہوئی ہیں تاہم چرواہوں اور مویشیوں کیلئے مخصوص اراضی کاہچرائی پر قبضہ غیرقانونی ہے ۔انہوں نے کہاکہ آجکل لوگ خود غرضی سے کاہچرائی پر قبضہ کرکے باغات بناتے ہیں یا تعمیراتی ڈھانچے کھڑا کئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس کیلئے واضح قانون ہے کہ تعمیراتی ڈھانچوں کو اگرچہ مہندم نہ کیا جائے تو قبضہ کرنے والے شخص سے کاہچرائی کے قریب ہی ملکیتی اراضی وصول کی جائے اور اگرکسی نے کاہچرائی کو کاشت میں لایاہوگا تو اس پر کاشت کرنے کی اجازت نہ دی جائے ۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی شخص نے اثررسوخ یا طاقت کے بل پر مکان یا کوئی اہم تعمیراتی ڈھانچہ کھڑا کیا ہوگا تو لینڈ ایکٹ میں ترامیم کے مطابق صرف دس مرلہ زمین پر اس کو قابض رہنے کی اجازت ہوگی ۔باقی پر قبضہ ہٹاقانونی طور لازمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کاہچرائی بے زبانوں کیلئے مخصوص ہے اس پر کسی بھی طرح قبضہ جائز نہیں ہے ۔انہوں نے کہاکہ محکمہ مال کے افسران کے ساتھ ساتھ سماج کے ذی حس افراد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کاہچرائی کو بچانے میں اپنا اہم کردار ادا کریں ۔اس سلسلے میں کے پی ایس نے اسلامی اسکالر مفتی ممتاز احمدقاسمی رحیمی سے بات کی تو موصوف نے شرعی نکتہ نظر کے حوالے سے بتایا کہ کاہچرائی پر کوئی شخص قبضہ نہیں کرسکے گا کیونکہ یہ زمین مخصوص ہے ۔مویشیوں کو گھاس چرانے کیلئے مختص ہے ۔انہوں نے کہا کہ لوگ کاہچرائی کو وقتی طوراجتماعی ضرورت کیلئے استعمال کرسکتے ہیںالبتہ کوئی شخص مذکورہ اراضی پر کسی بھی صورت میں قبضہ نہیں کرسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ شرعی طور کاہچرائی پر قبضہ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے
اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے سول سوسائٹی کے ذمہ دار محمد ابراہیم سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ کاہچرائی پر قبضہ کرنے کا معاملہ ایک ناسور کی صورت اختیار کرچکا ہے کیونکہ اب لوگ اس کو مال غنیمت تصور کرکے ہڑپنے کی کوشش کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ کاہچرائی سے قبضہ ہٹانے اور اس ارضی کو بچانے کیلئے انفرادی اور اجتماعی طور متحرک ہونے کی ضرورت ہے ۔
Comments are closed.