مانوحیدرآباد میں بین الاقوامی کانفرنس کا دوسرا دن:پرنٹ میڈیا کو درپیش مالی بحران سے نجات دلانے کیلئے مقررین کا مرکزی سرکارپرزور

ملکی سطح کی انجمن تشکیل دے کر وزیراعظم سے رجوع کی ضرورت /راجا محی الدین

سرینگر// اردو صحافت کے 200سال کی مناسبت سے مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی حیدرآباد کے اہتمام سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس کے دوسرے روز مقررین نے اردو صحافت اور مجموعی طور جملہ صحافتی شعبے کو درپیش چیلنج اور مستقبل کے حوالے سے خیالات کا اظہار کیا۔جموں وکشمیر کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے روزنامہ تعمیل ارشاد کے مدیر راجا محی الدین نے دوسرے روز کے اہم ترین سیشن میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے اردو صحافت خصوصا پرنٹ میڈیا کے موجودہ منظر نامے اور مستقبل میں درپیش چیلینجز پر روشنی ڈالی۔اپنی تقریر میں راجا محی الدین نے کہاکہ جموں وکشمیر میں اردو صحافت دن بہ دن ترقی کررہی ہے اور اس کیلئے اردو اخبارات کا ایک اہم رول ہے۔انہوں نے کہاکہ پرنٹ میڈیا کی جانب لوگوں کے قدرے کم التفات نے جموں وکشمیر کو اس تناسب سے متاثر نہیں کیا ہے جتنا کہ دیگر ریاستوں اور شہروں میں دیکھا جارہا ہے۔اسکی وجہ یہ ہے جموں وکشمیر کے عوام اردو سے اب بھی کافی شغف اور محبت رکھتے ہیں اور وہ اب بھی اخبارات کو معلومات اور اطلاعات کیلئے ایک معتبر ذریعہ مانتے ہیں۔انہو ں نے کہاکہ اگرچہ پرنٹ میڈیا کے حجم میں مختلف وجوہات کی بنا پر کمی آئی تاہم اخبارات نے موجودہ حالات کے تقاضوں کے عین مطابق خود کو ڈیجیٹل دنیا میں بھی متعارف کرایا اور آج روزنامہ تعمیل ارشاد جو جموں وکشمیر میں اردو زبان میں کثیر الاشاعت اخبار ہے ،سمیت دیگر پرنٹ میڈیا اداروں نے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا بھرپور استعمال کیا ہے اور اب خبروں اور دیگر متعلقہ مواد کی ترسیل کے طلبگاروں کی تعداد زیادہ بڑھ گئی ہے اور اب یہاں کے اخبارات ماضی کے بنسبت زیادہ پڑھے جاتے ہیں۔مستقبل کے حوالے سے راجا محی الدین نے اپنی رائے کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ جموں وکشمیر میں اردو صحافت کا مستقبل تابناک ہے تاہم اس حوالے سے مزید اقدامات اور ہمہ جہت کوششوں کی ضرورت ہے۔جموں وکشمیر سمیت ملک کے دیگر حصوں میں پرنٹ میڈیا کو درپیش چیلنجز پر بات کرتے ہوئے راجا محی الدین کا کہنا تھا کہ پرنٹ میڈیا اس وقت بہت سارے مالی چیلینجز سے نبردآزما ہے۔انہوں نے کہاکہ اخبارات کی پرنٹنگ دن بدن مشکل ہوتی جارہی ہے اسکی وجہ یہ ہے پرنٹنگ مواد ملکی سطح پر مہنگا ہورہا ہے اور چھاپ خانوں کیلئے نیوز پرنٹ اور دیگر پرنٹنگ میٹیریل مہنگے داموں دستیاب ہوجاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ گذشتہ ایک برس کے دوران پرنٹنگ میٹیریل کی قیمتیں تقریبا50فیصد تک بڑھ گئی ہیں جس کا بوجھ یہاں کے اخبارات اور قارئین برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہورہے ہیں یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے اردو ہی نہیں بلکہ ساری پرنٹنگ صنعت متاثر ہورہی ہے اور لازمی طور اس کا نتیجہ اخبارات کی کم اشاعت اور زیادہ سے زیادہ ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر انحصار ہے۔اس امر کی جانب علاقائی سطح ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر سبھی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نمائندوں کو ایک انجمن قائم کرنی چاہئے جو مرکز میں وزیراعظم اور دیگر متعلقہ وزارتوں کے ساتھ ان مسائل کو اجاگر کرسکیں اور پرنٹ میٹیریل کی قیمتوں میں توازن یا سبسڈی جیسے اشوز کو سامنے لاپائیں۔انہوںنے کہاکہ یہ کام وسیع پیمانے پر موثر طرےقے سے کرنے کی ضرورت ہے اور اس بارے میں اردو ،انگریزی ،ہندی یا دیگر زبانوں میں شائع ہونے والے اخباری اداروں کو مل جل کر کوئی لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ میڈیا ایک سماجی خدمت انجام دیتا ہے اور سرکار اور عوام کے درمیان ایک پل کی حیثیت سے کام انجام دے رہا ہے۔اس لئے حکومت کا بھی فرض ہے کہ وہ ان مسائل کی طرف سنجیدگی سے غور کرے۔راجا محی الدین نے مزید کہاکہ جموں وکشمیر میں پرائیوےٹ سیکٹر فعال نہیں ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پرائیوےٹ مارکیٹ سے اشتہارات کی وہ ریل پیل نہیں ہوتی ہے جو کہ دیگر بڑے شہروں یا ریاستوں میں دیکھنے کو ملتی ہے اور اب یہاں صرف محکمہ اطلاعات کی طرف سے جاری ہونے والے سرکاری اشتہارات ہی یہاں کے اخباری سیکٹر کو آکسیجن فراہم کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ محکمہ اطلاعات جموں وکشمیر ہی یہاں کے اخبارات کی باضابطہ درجہ بندی کرکے حسب زمرہ اشتہارات کی تقسیم عمل میں لاتا ہے اور یہاں کا اشتہاری نظام عمدہ طرےقے سے کام کرتا ہے۔اس وقت جموں وکشمیر میں کم وبیش300اخبارات شائع ہوتے ہیں اور بیشتر اخبارات کا ذریعہ آمدن محکمہ اطلاعات کے اشتہارات ہیں گویا یہاں کے اخباری سیکٹر کو کھڑا رکھنے میں محکمہ اطلاعات کا اہم کردار ہے جو دہائیوں سے جاری ہے۔سرکاری اشتہارات کے ذرےعے اخبارات کی مالی حیثیت کے لحاظ سے یہ ادارے روزگار کے وسائل بھی پیدا کرتے ہیں جو کہ جموں وکشمیر جیسے مشکل جغرافیائی خطے میں ایک احسن عمل ہے۔راجا محی الدین نے کہاکہ جموں وکشمیر میں اردو اخبارات اور اردو صحافت محفوظ ہاتھوں میں ہے اور امید قوی ہے کہ اس شعبے میں مزید ترقی ہوگی

Comments are closed.