قصبہ سوپور کی تجارتی ،سیاسی اور عوامی سطح پر ایک ممتاز حیثیت ، فیڈریشنز اور یونینوں کی آپسی مخاصمت سے روبہ زوال ہونے کا قوی اندیشہ

شان رفتہ بحال کرنے اور مخاصمت دور کرنے میں قصبہ کے بڑے تعلیمی ،سماجی ،تجارتی ،سیاسی، اور فلاحی اداروں کے ذمہ داراں اور کارڈی نیشن کمیٹی کے زعماءاپنارول ادا کریں

سرینگر // کے پی ایس: شمالی کشمیر میں قصبہ سوپور کو سماجی ،سیاسی اور عوامی سطح پر ایک انفرادی اور ممتاز حیثیت حاصل ہے ۔اس قصبہ کو تجارتی منڈی مانا جاتا ہے اور قصبہ کے تاجروں کے ساتھ سرینگر کے تاجر ہی نہیں بلکہ بیرون ریاستوں کے بڑے بڑے تاجر تجارت کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ جبکہ اس قصبہ میں تعلیم کا گراف بھی اچھا خاصا ہمیشہ سے رہا ہے اور اس سرزمین سے ایسے نمائندہ شخصیتیں پیدا ہوئی ہیں جنہوں نے مختلف سرکاری ،سیاسی وسماجی یا تجارتی شعبوں میںنہ صرف وادی میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنی ذہانت کا سکہ جماکرقصبہ کا نام تابناک اور روشن بنایا ہے اور اس وقت بھی قصبہ میں جہاں تجارت وادی کے دیگر قصبوں کی نسبت اچھی خاصی ہے وہیں یہ قصبہ تعلیمی اعتبار سے بھی اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں آگے بڑھ رہا ہے ۔قصبہ میں سرکاری اسکولوں اور ڈگری کالج کی کارکردگی قابل ستائش رہی ہے وہیں غیر سرکاری سطح پر جہاں مسلم ایجوکیشن ٹرسٹ ۔اقبال میموریل انسٹی چیوٹ اور انجمن معین الاسلام کے تحت قائم تعلیمی اداروں نے ماضی میں معیاری تعلیم کو پروا ن چڑھانے میں کلیدی رول ادا کیا ہے وہیں سنٹوریم،نیدر فیلڈ ، ،ماڈل اسکول وغیر ہ تعلیم کے میدان میں معیار کو قائم کرنے میں کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ اس قصبہ کی شان کو دوبالا کرنے میں شاہ رسول میموریل ویلکن ایجوکیشنل ٹرسٹ کا اہم کردار ہے کیونکہ مذکورہ تعلیمی ادارہ اس وقت جموں وکشمیر کے بڑے اداروں کے مساوی بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے ۔اس کے علاوہ قصبہ میں فروٹ منڈی قائم ہے جو براعظم ایشاءکی دوسری بڑی فروٹ منڈی تصور کی جاتی ہے ۔لیکن یہ ممتاز حیثیت رکھنے والا قصبہ انجمنوں اور یونینوں کے مخاصمانہ رویہ اور طرز عمل سے زوال پذیر ہونے کے درپے ہے ۔کیونکہ ان انجمنوں اور یونینوں اور فیڈریشنز کی مخاصمت کا اثر جہاں تاجر برادری میں انتشار پیدا کرتی ہیں وہیں اس سے عوامی حلقوں میں اضطرابی اور اضطراری کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور اس مخاصمت کی وجہ سے رشتے ناطے بھی بُری طرح متاثر ہوجاتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ قصبہ ہذا میں انجمن معین الاسلام کے بعد ٹریڈریس فیڈریشن سب سے بڑی انجمن اور فیڈریشن پانچ چھ دہائیوں سے تصور کی جاتی ہے کیونکہ اس فیڈریشن کی افرادی قوت اچھی خاصی ہے اور ہمیشہ سے جمہوری طرز پر انتخابات عمل میں لاکر اس کی ورکنگ باڑی جہاں تاجر برادری کے لئے کام کررہی ہے وہیں قصبہ کی تعمیروترقی اور عوامی مسائل کو حل کرانے کے لئے حکومت اور انتظامیہ تک رسائی لینے کی کوشش کرتی رہتی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ فیڈریشن جو تاجروں اور عوام کی امیدتھی مخاصمت کی شکار ہوئی ہے کبھی اس فیڈریشن کے انتخابات میں ہارنے والے امیدوار نے باغیانہ رویہ اختیار کرکے سیول سوسائٹی کو معرض وجود میں لایا کبھی اکنامک الائنس کو وجود بخشا گیا ۔اب چونکہ تین سال ٹریڈریس فیڈریشن کے انتخابات فیڈریشن کے آئین کے مطابق جمہوری طرز پر عمل میں لائے گئے جس میں سابق صدر فیڈریشن حاجی محمد اشرف گنائی دوبار جیت حاصل کرنے کے بعد ہار گئے اور معروف ماہر تعلیم و نامور تاجر قاضی حشمت اللہ ہاشمی صدر منتخب ہوئے ۔قاضی حشمت اللہ نے ورکنگ باڑی تشکیل دی جو ایک درجن سے زیادہ افراد پر مشتمل تھی لیکن چند ہی عہدیدار ہ فیڈریشن کی بقاءاور تاجروں کے مسائل کے تئیں سنجیدہ دکھائی دے رہے تھے جبکہ ورکنگ باڑی میں اہم عہدوں پر فائزافراد آئینی طور اپنا رول ادا کرنے سے قاصر تھے ۔جس کے نتیجے میں فیڈریشن منتخبہ باڑی بھی انتشار اور خلفشار کی شکار ہوگئی ۔یہاں تک آئین میں ترامیم کرنے کے بعد فیڈریشن عدالت کی کٹہری میں کھڑا ہے ۔عدالت میں فیڈریشن کے خلاف کیس کرنے والے افراد بھی اپنے دور میں اس میں ذمہ دار عہدوں پر فائز رہے ہیں ۔عدالتی کیسوں کا دفا کرنے کے بجائے فیڈریشن ہی بٹ گئی ہے اوراہم عہدوں کی برطرفی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے ۔موجودہ فیڈریشن نے اکتوبر 2021کو آئینی طور انتخابات عمل میں لانے کا اعلان کیا تھا اور الیکشن بورڈ بھی تشکیل پایا تھا لیکن ابھی تک انتخابات کے حوالے سے کوئی ردعمل ظاہرنہیں کیا گیا بلکہ عدالت میں کیس زیر کارروائی ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ اب خان میموریل فرنٹ بھی معرض وجود میں آیا ہے ان کا ایجنڈا اور الائحہ عمل کیا ہوگا؟ وہ اگر چہ ابھی تک واضح نہیں ہے تاہم ایک اور یونین قائم ہوچکی ہے ۔یونینوں کا قیام اگر چہ خوش آئندہے لیکن جب یہ انجمنیں مفاہمت اور اتحاد پر قائم ہوں لیکن جب یہ انجمنیں عوامی ،تجارتی اور سیاسی سطح پر باٹنے کی طرف گامزن ہوں تو وہاں اللہ ہی حافظ ہے ۔اور یہ بھی کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ سوپور کے سوشل میڈیا سے وابستہ افراد صحافتی اقدار کا پاس ولحاظ رکھے بغیر معاملات کو سلجھانے کے بجائے الجھانے میں متعلقین سے ایسے سوالات پوچھتے ہیں جو غیر موزون اور نامناسب ہوتے ہیں حالانکہ ایک صحافی کا غیر جانبدار ہونا ناگزیر ہے اور یہ صحافتی اقدار کی پہلی ترجیح ہے ۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ قصبہ سوپور کو بچانے کےلئے قصبہ کے بڑے تعلیمی ،سماجی ،تجارتی ،سیاسی اور فلاحی اداروں کے ذمہ داراں اور کارڈی نیشن کمیٹی کے زعماءمتحد ہوکر ان انجمنوں اور فیڈریشنز کو قصبہ کی بقاءاور شان رفتہ بحال کرنے کے لئے قائل کریں اور ٹریڈریشن فیڈریشن سوپور کا عدالتی معاملہ ہو یا اس کے عہدیداروں میں اختلاف یا اس کے صدارتی انتخابات کے معاملات کو سدھارنے اور قصبہ میں مجموعی طور مخاصمت دور کرنے کےلئے اپنی کوششیں شروع کریں ۔اگر نہ سمجھو گے توتیری داستان نہ رہے گی داستانوں میں ۔
﴿…………………………………………………………………………﴿…………………………………………………………………………﴿

Comments are closed.