حکومت ہند کے نارملسی کے دعوے زمینی حالات کے برعکس؛ آلوچی باغ جاکر سپندر کور کے لواحقین سے تعزیت کی،: مفتی ناصرالاسلام
میرا یہاں آنے کا مقصد ہی ہے کہ ڈیڈ کروڑ مسلمان فرقہ سکھ فرقہ کے ساتھ کھڑا
سری نگر:۰۱، اکتوبر:کے این ایس : جموںوکشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصرالاسلام نے کہا ہے کہ 5اگست کے بعد مرکزی حکومت نے نارملسی اور حالات بدلنے کے جو دعوے کئے ہیں، وہ اس کے برعکس ہیں اور حالات 1990میں واپس پہنچ گئے ہیں۔ کے این ایس کے مطابق اتوار کو مفتی ناصرالاسلام آلوچی باغ سرینگر گئے اور سنگم عیدگاہ سرینگر میںہلاک کی گئی پرنسپل سپندرکور کے لواحقین سے تعزیت کی۔ نامہ گاروں سے بات کرتے ہوئے مفی ناصر الاسلام نے کہاکہ ”یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ 5یہ بات ثابت ہوگئی کہ 5اگست کے بعد حکومت ہند نے دعویٰ کیا تھا کہ یہاں پہ نارملسی ہے، حالات بدل گئے ہیں،ملی ٹنسی پر قابو پایاگیاہے،میں سمجھتا ہوںکہ زمینی حالات جو ہیں،وہ اس کے برعکس ہیں بلکہ ہم90میں واپس پہنچے ہیں“۔ انہوںنے کہا کہ” جس نے بھی سپندر کول کو مارا ہے،میں سمجھتا ہوں کہ اس کی بہت بڑے پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہئے کیونکہ مجھے نہیں لگ رہا ہے کہ کسی کو ہم اس میں بدنام کرسکتے ہیں بغیر تحقیقات کے یا کسی کا بھی اس میں ہاتھ ہوسکتا ہے جس نے ہندو اور مسلمانوںکے درمیان اور سکھوں اور کشمیری مسلمانوں کے درمیان اختلافات کوپیدا کرنے کی کوشش کی ہے“۔ نامہ نگاروں کی طرف سے اقلیتوں میں ڈر اور وادی چھوڑنے کی کوشش کرنے کے سوال کے جواب میں مفتی ناصرالاسلام نے کہاکہ جتنے بھی سکھ برادری کے لوگ ہیں، میں نے ان کو یہ یقین دہانی دی ہے جس نے بھی یہ حرکت کی ہے، یہ بزدلانہ حرکت ہے ، قابل مذمت حرکت ہے اور شدید الفاظ میںمذمت کرتے ہیں لیکن کسی کمیونٹی کو اس کیلئے مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں ہے جب تک نہ اس کی تحقیقات نہ ہو“۔ مسلمان فرقہ سے سکھ برادری کو گلہ شکوہ کے بارے میں پوچھنے پر مفتی ناصرالاسلام نے کہاکہ ”میں جموںوکشمیر میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ مسلمانوں کی نمائندگی کرتا ہوںہوں، اگر آپ یہ مانتے ہیں تو آپ کو تواحساس ہونا چاہئے میرا آنا کونسی ترجمانی ہے، ہم تو پہلے بھی سکھ برادری کے ساتھ ہیں اور آگے بھی رہینگے“۔ مفتی ناصرالاسلام کے ہمراہ دیگر علمائے کرام بھی موجود تھے۔
Comments are closed.