اشیائے خوردنی میں ملاوٹ ا نسانی جانوں کیلئے خطرہ،سرکار سطح پر عدم توجہی کا مظاہرہ

نئی اور لاعلاج بیماریاں سامنے آنے کا موجب،انتظامیہ کیلئے ناقص اور غیرمعیاری کمیکلز کی ملاوٹ کرنے والی کمپنیوں کیخلاف کاروائی کرنا ناگزیز

سرینگر : ماضی میں لوگوں کے پاس غربت اور غذائی اجناس قلیل مقدار میں دستیاب تھی لیکن ہر کوئی چیز صاف اور بلا ملاوٹ تھی اور اس زمانے میں بیماریاں بالکل محدود اور درد کا فوری علاج بھی ممکن تھا لیکن اب ایسی نئی لاعلاج بیماریاں انسانوں میں لگ جاتی ہیںجولوگوں پریشانی کا باعث بنتی ہیں ۔ کیونکہ اشیائے خوردنی تیار کرنے والی بیشترکمپنیوں کے مالکان خود غرض اور مفاد پرست بنے ہوئے ہیں۔وہ انسانی جانوں کا پرواہ کئے بغیر ہی اشیائے خوردنی کی چیزوں میں ایسے کمیکلز کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ جس سے انسان کے شریر میں ایسی بیماریاں پھوٹ پڑتی ہے جن کا علاج ناممکن ہی نہیں بلکہ مشکل بنتا جارہا ہے ۔ان چیزوں کو ذائقہ دار بنانے کیلئے اشیائے خوردنی یعنی مسالہ جات بشمول مرچ،ہلدی،تیلِ سیاہ،نمک،دودھ ،مشروبات ودیگر چیزوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔بالخصوص انسان ان اشیائے خوردنی کو کھانے پینے کی چیزوں میں استعمال کرکے مزہ دار بناتا ہے۔شکم سیری کے علاوہ ان چیزوں سے مزہ چکھتے ہیں لیکن اسطرح سے اشیائے خوردنی میں غیرمعیاری اور ناقص کمیکلز کی ملاوٹ انسانوں کیلئے جان لیوا ثابت ہورہی ہیں۔موجودہ دور میںایسے مرض تشخیص کئے جاتے ہیں جن کے متعلق انسان کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا ہے۔ گردوں یادوسرے اندرونی اعضاء میں پتھری ہوتی ہیں بروقت علاج نہ ملنے کی صورت میں یہی پتھریاں ٹیومر یاکینسر کی بیماریوں کو جنم دیتی ہیں۔ان بیماریوں کے بنیادی محرکات یہی ملاوٹ دار اشیائے خوردنی اور مسالہ جات کا استعمال ہے۔اگرچہ زمانہ قدیم کی مناسبت سے آج کل ذائقہ دار اور مزہ دار اشیائے خوردنی میسر ہے اور کھانے پینے والے چیزوں میں یہ اشیائے خوردنی مزے کو اور زیادہ بڑھاتے ہیںلیکن اس مزہ داری سے انسان کومرض کا شکار ہونے کے بعد ان چیزوں سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ ڈاکٹران چیزوں اور مسالہ جات کے نقائص سے پوری طرح واقف ہیں اس لئے وہ مریضوں کو ان چیزوں سے پرہیز کرنے کی صلاح دیتے رہتے ہیں۔لیکن ان چیزوں کا استعمال جہاں ضرورت تھی وہیں یہ فیشن بھی بن گئی ہے ۔جس کے نتیجے میں شوگر ،تھائیرائڈ ، یورک اسیڈ،بلڈ پرشیر جیسی دائمی بیماریاںانسانوں کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہیں۔غیرمعیار ی اور ناقص اشیائے خوردنی تیار کرنے والی کمپنیوں کی لگام کسنے کیلئے کئی سال قبل عدالت عظمیٰ نے ہدایت جاری کی تھی کہ غیرمعیاری اشیائے خوردنی تیار کرنے والی کمپنیوں کیخلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جانی چاہئے۔تاکہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ نہ ہوجائے ۔اس سلسلے میں سماج کے کئی حساس لوگوں نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ آجکل لوگ جس طرح سے ملبوسات ماڈرن طریقے سے استعمال کرتے ہیں اسی طرح کھانے پینے کی چیزوں میں رنگ دار مسالہ جات کواستعمال میںلاکر ذائقہ دار اور خوش نما بنانے کی تکدو میں رہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس بات سے ہرکوئی واقف ہے کہ یہ مسالہ جات غیر معیاری اور ناقص کمکلز سے تیار کئے ہوئے ہیں۔ لیکن اپنی ٹاٹ بھاٹ کو برقرار رکھنے کیلئے شادی و دیگر خوشیوں کی تقریبات میں ان اشیائے خوردنی کا بے جا استعمال کرتے ہیں۔انہوںنے کہا کہ زیادہ مزہ دار اور رنگ دار وازوان ہونے پر مدعو کئے گئے مہمان واپس لوٹتے ہوئے صاحب خانہ کے متعلق ان کی مہمان نوازی کاخوب چرچاکرتے ہیں اور جولوگ مہمانوں کی صحت کے بارے میں سوچتے ہوئے ان غیر معیاری اشیائے خوردنی کا کم استعمال کرتے ہیں ان صاحب خانہ کوکنجوس اور بخیل تصورکیاجاتا ہے حالانکہ ان کی نیت میں مہمانوں کی بھلائی ہوتی ہے لیکن زمانہ ساز لوگ اس کو سادہ لوح اور بخیل مانتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اسی طرح سے لوگ روز مرہ کے کھانے پینے کی چیزوں میں غیر معیاری اشیا ئے خوردنی استعمال کرتے ہیں۔جس سے وہ بے شمار امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اشیائے خوردنیومسالہ جات کی جانچ پڑتال کے حوالے سے ادارے بھی قائم ہیں لیکن ان اداروں میں تعینات افسران وملازمین یا تو غفلت کی نیند سوتے ہیں یا تو دولت کمانے کیلئے غیر معیاری اشیائے خوردنی ومسالہ جات کی خریدوفروخت میں کھلی چھوٹ دیتے ہیں۔اس سلسلے میں انہوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو ان غیر معیاری اشیائے خوردنی ومسالہ جات سے نجات دلانے کیلئے تیار کرنے والی کمپنیوں کی جانچ پڑتال کی جائے اور ملاوٹ کرنے والی کمپنیوں کیخلاف کاروائی عمل میں لائے تاکہ لوگوں کا صحت کسی بھی طرح متاثر ہونے سے بچ جائے اور لوگ لاعلاج امراض سے محفوظ رہ سکیںگے ۔

Comments are closed.