مرکزی کو جموں وکشمیر کے عوام کا بھروسہ بحال کرنا ہی ہوگا/ڈاکٹر فاروق عبداللہ
5اگست 2019کے فیصلے قبول نہیں کرتے ، جموںوکشمیر میں لوگوں کو پشت بہ دیوار اور تند کیا جارہا ہے
ہم نے واضح کردیا پہلے ریاستی درجہ کو بحال کیا جائے بعد میںالیکشن ، ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے گئے / عمر عبد اللہ
سرینگر/26جون /: نئی دلی میٹنگ کے دوران ہم نے وزیر اعظم کو واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ جموں کشمیر میں انتخابات کے انعقاد کیلئے ریاستی درجے کی بحالی لازمی ہے کی بات کرتے ہوئے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدرعمر عبد اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹے گئے چاہئے اس میں 70ہفتو ں کے بجائے 70ماہ کا وقت کیوں نہ لگیں ۔ سی این آئی کے مطابق سرینگر میں میڈیا نمائندوںسے بات کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے کہا کہ نئی دلی میں جموں کشمیر پر آل پارٹی میٹنگ میں ہم نے وزیر اعظم مودی کو صاف کر دیا ہے کہ اگر وہ جموں کشمیر میں انتخا بات کرانے کے حق میں ہے تو پہلے انہیں ریاستی درجے کو بحال کرنا ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ میٹنگ میں ہماری جانب سے آزاد صاحب ( غلام نبی آزاد ) نے بات کی اور انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ ہم وقت کو تسلیم نہیں کرتے ہیں بلکہ بلکہ ریاستی درجہ بحال کیا جائے تب جاکر جموں کشمیر میں الیکشن کرائے جائیں ۔ عمر عبد اللہ نے کہا کہ تمام جماعتوں نے یک زبان ہو کر کہا کہ پہلے جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کیا جائے بصورت دیگر ہم انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں میٹنگ میں الائنس کے طور پر نہیں بلایا گیا، اتحاد میں شامل جماعتوں کو انفرادی طور پر مدعو کیا گیا تھا اور کسی بھی جماعت نے الائنس کے ایجنڈا سے باہر بات نہیں کی۔ اتحاد میں شامل سبھی جماعتوں نے صاف صاف الفاظ میں کہا کہ ہم 5اگست 2019کے فیصلے قبول نہیں کرتے ہیں اور ہم اس کیلئے سیاسی، قانونی اور پُرامن جدوجہد کرتے رہیں گے۔ڈاکٹر صاحب ہو یا محبوبہ جی الائنس میں شامل سبھی جماعتوں نے میٹنگ میں کہا کہ بی جے پی کو دفعہ370ختم کرنے کا ایجنڈا پورا کرنے 70سال لگے، ہمیں 70مہینے یا اس سے زیادہ یا کم وقت لگے لیکن ہم اپنے مشن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ میٹنگ میں جن لوگوں نے دفعہ370پر بات کرنے سے گریز کیا اُن میں سے کوئی بھی گپکار الائنس کے ساتھ شامل نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میٹنگ میں چند شرکا نے یہ کہہ کر دفعہ370پر بات کرنے سے گریز کیا کہ معاملہ اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے اور پر بات نہیں کرسکتے لیکن ہمارا یہ ماننا نہیں ہے، ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور ہر سٹیج پر اپنا احتجاج درج کریں گے۔ بابری مسجد کا کیس عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت تھا تو کیا پھر بھاجپا نے رام مندر پر بولنا بنا کردیا تھا؟۔‘‘عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’مودی حکومت نے جموں و کشمیر سے خصوصی پوزیشن چھینی اور لوگوں سے یہ کہنا کہ ہم اِسی حکومت سے خصوصی پوزیشن واپس حاصل کریں گے ایک دھوکہ ہوگا۔ ‘‘ حدبندی کمیشن سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ کا کہناتھا کہ ’’ نیشنل کانفرنس نے ڈاکٹر فاروق عبداللہ کو اس بارے میں حتمی فیصلہ لینے کا مکمل منڈیٹ دیا ہے، ابھی تک کمیشن نے ڈاکٹر صاحب کو دوبارہ اپروچ نہیں کیا ہے، جب وہ دوبارہ اپروچ کریں گے تب وہ اس کے متعلق اپنا فیصلہ لیںگے۔‘‘ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مرکزی نے حدبندی، الیکشن اور ریاستی درجے کی جو ٹائم لائن رکھی رہے اُسے کسی نے قبول نہیں کیا ہے اور آزاد صاحب نے اس بارے میں سب کی طرف سے واضح کرکے الیکشن سے قبل ریاستی درجے کا مطالبہ کیا۔نیشنل کانفرنس کے الیکشن میں حصہ لینے یا نہ لینے کے سلسلے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’اگر لوگ اس بات سے مطمئن ہیں کہ جب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آئے گا تب تک وہ موجودہ مصائب اور مشکلات برداشت کرتے رہیں گے تو ہم الیکشن سے اپنے ہاتھ کھڑے کردیں گے۔ لیکن یہاں افسرشاہی اور جوابدہی کے فقدان سے لوگ مشکلات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ایک شہری کو ڈی سی صاحب صرف یہ بات کہنے پر پر سلاخوں پوچھے دھکیل دیتا ہے کہ وہ مقامی افسران کیساتھ بات کریگا کیونکہ باہر کے افسر اُسے نہیں سمجھیں گے۔ جموںوکشمیر میں لوگوں کو پشت بہ دیوار اور تند کیا جارہا ہے۔ اگر یہ سب کچھ آپ کو ٹھیک لگ رہا ہے تو پھر ہم اپنے ہاتھ اوپر کردیتے ہیں لیکن ایسا بالکل بھی نہیں، لوگ زبردست سختی سے دوچار ہیں اور اس لئے ضروری ہے کہ ہم خصوصی پوزیشن کی بحالی کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ لوگوں کی راحت کیلئے بھی کام کریں۔ اس موقعہ پر جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے آج اپنی رہائش گاہ پر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیرا عظم کیساتھ ہماری ملاقات بہت اچھی رہی۔ سبھی جماعتوں نے اپنے اپنے خیالات اُن کے سامنے رکھے۔ جموں وکشمیر میں حالات بہتر بنانے اور ایک سیاسی دور شروع کرنے کیلئے یہ مرکز کی طرف سے پہلا قدم تھا۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’میں نے وزیر اعظم کیساتھ میٹنگ میں صاف صاف الفاظ میں کہا کہ ہندوستان کے پہلے وزیرا عظم نے ہمارے ساتھ رائے شماری کا وعدہ کیا تھا اور پھر 1996سے میں نرسما رائو کی حکومت نے آزادی کم Sky is the Limitکا وعدہ کیا گیا تھا، اُن وعدوں کا کیا ہوا؟جموں وکشمیر کے عوام کا نئی دلی پر سے بھروسہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے، اعتماد کے اس فقدان کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ بھروسہ کس طرح بحال کرنا ہے اس کا فیصلہ آپ کو کرنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے کہا کہ اپنی جماعت اور گپکار اتحاد میں شامل پارٹیوں کے ساتھ بات کرنے تک میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔
Comments are closed.