ناقابل برداشت مہنگائی سے وادی کے غریب لوگوں کی نیندیں حرام

مرغ، ، پنیر اور ساگ کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہے ، ضلع انتظامیہ خاموش تماشائی

سرینگر /27مارچ/: وادی میں کمرتوڑ مہنگائی نے غریب طبقہ سے وابستہ لوگوں کی نیندیں حرام کردی ہے ،ضروریات زندگی مہنگے داموں فروخت ہونے سے لوگوں میںتشویش کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ انتظامیہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کا زمینی سطح پر کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے ۔ سی این آئی کے مطابق وادی کے مختلف علاقوں میں کمرتوڑ مہنگائی نے غریب طبقہ سے وابستہ لوگوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے ۔ سبزیوں ، گوشت اور بوئلر مرغ فروخت کرنے والے ہر دن قیمتوں میں اضافہ کر رہے ہیں اگرچہ انتظامیہ نے بوئلر مرغوں کی قیمت 150روپے فی کلو مقرر کی ہے تاہم کوئی بھی مرغ فروش انتظامیہ کی جانب سے مقرر کی گئی قیمت کے مطابق بوئلر مرغ فروخت نہیں کرتا ہے بلکہ 200روپیہ فی کلو کے حساب سے بوئلر مرغ فروخت کرتے ہیں ۔پنیر وادی کشمیر میں 200روپیہ فی کلو کے حساب سے فروخت کی جاتی ہے ،دہی30روپیہ کھٹا دودھ 27سے30روپیہ فی لیٹر سفروخت کیا جارہا ہے ۔کھانے پینے کی چیزیں جن میں چائے ،نمکین چائے ،تیل ،ہلدی ،مرچ اور مصالحہ جات کی قیمتیں بھی آسمان کو چھو رہی ہیں جبکہ ڈالڈا آٹا ،دالیں عوام کی قوت خرید سے باہر ہیں ۔وادی کشمیر میں کھانے پینے کی چیزوں اور سبزیوں کا نرخ کبھی بھی ایک ماہ کیلئے اعتدال پر نہیں رہتا ہے بلکہ دن بدن میں اضافہ ہونے کی وجہ سے عوام کو مصائب ومشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔معلوم ہوا ہے کہ ساگ کی قیمت 70فی کلو تک بڑھائی گئی ہے جبکہ گوشت کو 600سو کلو کے حساب سے صارفین کو فروخت کیا جا رہا ہے ۔ مزدور طبقہ گھریلوں صنعتیں چلانے والے اور غریبی کی سطح سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کو مہنگائی نے کمر توڑ کر رکھ دی ہے اور وہ اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے میں سخت مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں ۔انتظامیہ کی جانب سے قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے ضمن میں بلند بانگ دعوے اور وعدے کئے جارہے ہیں ۔بڑے تاجروں ،ہول سیل ڈیلروں اور کریانہ فروخت کرنے والوں نے پوری وادی میں اپنا راج قائم کیا ہوا ہے ۔نرخ مقرر کرکے اپنی تجوریوں کو بھرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں جس کی وجہ سے وادی کشمیر کا غریب عوام اقتصادی بد حالی کا شکار ہوکر ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوکر رہ گیا ہے اور انتظامیہ کی جانب سے راحت دلانے کے ضمن میں کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جارہی ہے ۔

Comments are closed.