معراج کی شب کو دین اسلام میں ایک نمایاں اور منفرد مقام حاصل ہے


(تحریر: ایڈوکیٹ منظور تاتیرے)

اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکان و لامکاں کی وسعتوں میں سے نکال کر اپنے قرب کی حقیقت عطا فرمائی جس کا گمان بھی عقل انسانی میں نہیں آ سکتا.

"اختر شام کي آتي ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتي ہے سحر جس کو، وہ ہے آج کي رات
رہ يک گام ہے ہمت کے ليے عرش بريں
کہہ رہي ہے يہ مسلمان سے معراج کي رات….” (اقبال)

واقعہ معراج ہجرت سے پانچ سال قبل پیش آیا اور 27رجب کو ہی حضور اکرم ﷺ نے معراج کی سعادت حاصل کی، اللہ کے حکم سے حضرت جبرائیل علیہ السلام پچاس ہزار فرشتوں کی برات اور براق (ایک سفید جانور جسے براق کہا جاتا ہے، اس پر زین کسی ہوئی تھی، لگام پڑی ہوئی تھی اور اس کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ تاحد نگاہ جہاں تک نظر پہنچتی اپنا قدم رکھتا) لے کر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر سوئے عرش سفر شروع ہوا. آپ ﷺ کی خاطر آسمانوں کے دروازے کھولے گئے یہاں تک کہ ساتویں آسمان سے آگے گزر گئے ، وہاں پر آپ کے رب نے اپنے ارادہ کے مطابق آپ سے گفتگو فرمائی.
حدیث مبارکہ یہ بتاتی ہے کہ معراج کس طرح ہوئی اور اس سفر میں کیا واقعات پیش آئے۔ حدیث بخاری میں روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا منازل طے ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ مجھ سے قریب ہوا اور قرب میں اضافہ زیادہ ہوا حتیٰ کہ میرے اور جلوہ ربوبیت کے درمیان دوہاتھ کا فاصلہ رہ گیا۔ اس کیفیت کا ذکر باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں یوں فرمایا ترجمہ: پس آپؐ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوئے اور اللہ بھی قریب ہوا اور فاصلہ اتنا رہ گیا جتنا کہ کمان کا تیر سے ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی زیادہ قریب، اس قرب کے مقام پر پہنچ کر بھی حضور اکرمؐ مطمئن رہے اور لبوں پر تبسم تھا۔
حدیث شریف میں اسکے بیان کیلئے ’’قَابَ قَوْسَیْن‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جنہیں اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب انتہائی قرب اور نزدیکی بتانا مقصود ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بیداری کی حالت میں اپنے پیارے رب کا دیدار کیا کہ پردہ تھا نہ کوئی حجاب، زمانہ تھا نہ کوئی مکان، فرشتہ تھا نہ کوئی انسان اور بے واسطہ کلام کا شرف بھی حاصل کیا۔
اس کے بعد آپؐ حضرت ام ہانیؓ کے گھر واپس تشریف لے آئے جہاں سے عالم بالا کی سیر کرنے کوگئے تھے ، جب صبح ہوئی تو آپؐ نے باہر کے لوگوں سے اس واقعہ کاذکر کیا ،تو بعضے لوگ جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے وہ تو فوراً مرتد ہوگئے اور بعضے کفارو و مشرکین حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ لو دیکھو تمہارے محمدؐ کہہ رہے ہیں کہ وہ رات ہی رات میں بیت المقدس بھی ہو آئے ہیں تو انہوں نے کہا ”اگر محمدؐ کہتے ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔ میں تو اس سے بھی زیادہ پر ایمان رکھتا ہوں کہ فرشتے ان کے پاس آتے ہیں“ چناں چہ اِس واقعہ کی تصدیق ہی کی وجہ سے حضرت ابوبکر ؓ کا لقب ’’ صدیق‘‘ پڑگیا. یہی وہ معراج ہے جس کے انکار نے ابو الحکم کو ” ابو جہل “ بنا دیا اور جس کی تصدیق نے ابو بکر کو ” صدیق اکبر“ بنادیا ۔
شب معراج ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ انسانیت کی فلاح وکامرانی اور ” تسخیرکائنات “ کا راز پیغمبر اسلام ﷺ کی غلامی اور آپکی اطاعت میں پوشیدہ ہے.
"تیری معراج کہ تو لوح وقلم تک پہنچا​
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا​…”
دُعا ہے کہ اللّہ تعالٰی کی پاک ذات ہم سب کو شبِ معراج کی تمام تر سعادتیں،رحمتیں اور برکتیں اپنے دامن میں سمیٹنے کی توفیق و ہمت عطا فرماۓ اور ہمارے دلوں کو عشقِ مصطفٰےﷺ سے معمور فرماۓ،کہ یہی زندگی کا اصل حاصل ہے۔

Comments are closed.