طبی اداروں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے،مریض مایوس؛ محکمہ صحت کے دعوے بے معنی ،نیم طبی عملے کی کاروائیاں تشویش ناک

سرینگر/09مارچ: طبی اداروں کی حالت بہتر بنانے بیماروں کو سہولیات بہم پہنچانے کے ضمن میں سرکار کے دعوؤں اور وعدوں کا اثر زمینی سطح پر نہیں دکھائی دے رہا ہے ۔بڑے اور چھوٹے سرکاری اسپتالوں کی حالت دن بدن بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے اور بیماروں کو پہلے سے زیادہ مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے ساتھ اسپتالوں میں ناشائستہ سلوک رواں رکھا جارہا ہے۔کرسیاں تو وہی ہیں افراد کو تبدیل کرکے طبی اداروں کی حالت کو تب تک بدلا نہیں جاسکتا جب تک ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کا ضمیر جاگ جائے گا اور وہ اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کریں۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق طبی اداروں کی صورت حال کو تبدیل کرنے بیماروں کو بہتر علاج و معالجہ فراہم کرنے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی ڈیوٹیوں کو یقینی بنانے کیلئے محکمہ صحت اور سرکار نے پچھلے تین برسوں کے دوران سینکڑوں بار یقین دہانی کی کہ ایسے ڈاکٹروں کو نوکری سے برخاست کیا جائے گا جو دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینے سے انکار کریں گے۔کشمیر وادی میں جتنے بھی ہیلتھ اور پرائمری ہیلتھ سینٹر موجود ہیں کسی ایک کی حالت کو بہتر قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ایسے سرکاری اسپتالوں کے دروازے بیماروں کیلئے برابر12بجے تک بند رہتے ہیں اور دوپہر12بجے کے بعد خاکروب یا درجہ چہارم کا کوئی ملازم ہی ان اسپتالوں کا دروازہ کھولتا ہے ۔ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ دور دراز علاقوں کے رہائش پذیر لوگوں نے سینکڑوں دفعہ شفا خانوں میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی نیم طبی عملے کی عدم موجودگی ،دوائیوں کی کمی ،مشینوں کا خراب ہونے کی شکایت درج تو کی مگر محکمہ صحت کے ذمہ داروں پر عوامی شکایتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور حالات دن بدن خراب ہی ہوتے جارہے ہیں ۔وادی کے مختلف علاقوں میں جتنے بھی سرکاری اسپتال قائم کئے گئے ہیں ان سے ذبح خانے بہتر ہیں جہاں بھیڑ بکریوں کو پھر بھی تیز چھریوں سے زبح کرکے ان کا گوشت فروخت تو کیا جارہا ہے اسکے برعکس سرکاری شفا خانے نیم طبی عملے کیلئے تجربہ گاہ اور ڈاکٹروں کیلئے روپیہ کمانے کی جگہیں بن گئی ہیں ۔دور دراز علاقوں میں تعینات مرد ڈاکٹر لیڈی ڈاکٹر یا تو اپنی ڈیوٹیوں پر جاتے ہی نہیں اگر جاتے بھی ہیں تو اسپتال سے فاصلے پر اپنے پرائیویٹ کلنک رکھتے ہیں جہاں وہ بیماروں کے جیب صاف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ حاملہ خواتین کو اکثر و بیشتر لعل دید یا نرسنگ ہوموں کا رخ کرنا پڑتا ہے اور ہیلتھ سینٹروں اور پرائمری ہیلتھ سینٹروں میں تعینات لیڈی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں کہ وہ حاملہ خواتین کو زچگی کے وقت علاج کرسکیں جبکہ سرکار کا دعویٰ اس کے برعکس ہے ۔سرکار اور محکمہ ہیلتھ کے مطابق شفا خانوں میں بیماروں کو سہولیات بہم پہنچانے کا ہر ممکن انتظام کیا گیا ہے ۔دور دراز علاقون کی حاملہ خواتین کو زچگی کے وقت انتہائی مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اپنے علاقوں میں جو اسپتال انہیں دستیاب ہیں ان سے ایسی خواتین کو کوئی سہولیت بہم نہیں پہنچتی ہے۔یہی حال بڑے اسپتالوں کا بھی ہے لاتعداد ڈاکٹر اور نیم طبی عملے تعینات کرنے کے باوجود بیمار نالاں ہیں کہ انہیں بہتر علاج ومعالجہ فراہم نہیں کیا جارہا ہے۔سرکاری اسپتالوں کی حالت تو انتظامیہ کے چند افراد کی ادلا بدلی سے تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے اسکے لئے ڈاکٹروں کو پہلے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا روپیہ کمانے کی مشین بننے کے بجائے انہیں انسان اور انسانیت کی خدمت کرنے کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔محکمہ صحت کو زبانی جمع خرچ کرنے کے بجائے عملی اقدامات اٹھانے ہونگے۔ڈاکٹروں ،نیم طبی عملے کی ڈیوٹیوں کو یقینی بنانے کیلئے کارگر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔بڑے اور چھوٹے سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کو جوابدہ بنایا جائے تبھی شفاخانوں کی حالت کو بہتر بھی بنایا جاسکتا ہے اور بیماروں کو بہتر علاج ومعالجہ بھی بہم پہنچایا جاسکتا ہے۔

Comments are closed.