سرینگر/18فروری: پونچھ بالاکوٹ میں پرائمری سکول ایک کھلے میدان میں چلایا جارہا ہے جس پر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مینڈھر پونچھ میں طلبہ کو بنیادی سہولیات مئیسر نہ ہونے کے نتیجے میں اس سرحدی قصبہ کے بچوں کا مستقبل تاریک بنتا جارہا ہے ۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق سرحدی سب ڈویژن مینڈھر کے بلاک بالاکوٹ کا پرئمری سکول سویاں ویسٹ کی عمارت نہ ہونے کی وجہ سے سرحدی علاقہ کے زیرِ تعلیم بچے کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرنے پر مجبور جس کی طرف محکمہ تعلیم کے افسیران کی نظر نہ پڑی ایک طرف کورنا وباء کی وجہ سے کمازکم ایک سال تک تمام تعلیمی ادرں مکمل بند رہے اس دوران نیٹ ورک کی خستہ حالت ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے آن لائن تعلیم حاصل کرنے سے بھی محروم رہے آج جب سکول کھلے ہیں تو عمارت نہ ہونے کی وجہ سے زیرِ تعلیم بچوں کو کھلے آسمان کے تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔عوام کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا علاقہ سرحدی ہے اکثر یہاں پر گولہ باری ہوتی رہتی ہے اور نہ ہی سرکار کی جانب سے سکول کے نزدیک کوئی بنکر بنا ہوا ہے کہ دوران گولہ باری ہمارے بچے اس میں پنا لے سکیں۔انہوں نے کہا کہ پرئمری سکول سویاں ویسٹ میں کم ازکم 25-30 بچے زیرِ تعلیم ہیں اور دو اساتذہ ہیں جن کے بیٹھنے کے لئے ایک کمرہ بھی دستیاب نہ ہے اس کی عمارت کا کام 2012میں شروع ہوا تھاجو آج2021 میں بھی محکمہ تعلیم کی لاپرواہی کی وجہ سے مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔انہوں نے کہاکہ گولہ بھاری کی وجہ سے سکول بند ہونے کی وجہ سے بھی ہمارے بچوں کی تعلیم متاثر ہو جاتی ہے اور جب کبھی سکول کھلتا ہے تو عمارت نہ ہونے بارش ہوا یا دھوپ ہو کھلے آسمان کے تلے بیٹھ کر مجبورا تعلیم حاصل کرنی پڑتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے کئی بار اس سکول کے متعلق محکمہ تعلیم کے آفسران سے اپیل کی کہ سرحدی خطہ کے زیرِ تعلیم بچوں کے بیٹھنے کے لئے کوئی مقول بندوست کیا جائے تاکہ اس سرحدی علاقہ زیرِ تعلیم بچوں کی زندگی بربا د ہونے سے بچ سکے۔مگر بد قیسمتی سرحدی علاقہ کی عوام کی یہ ہے کہ آج تک اس طرف توجہ نہ دی جس کی وجہ سے یہاں کے زیرِ تعلیم بچے اچھی تعلیم سے محروم ہیں۔ ذاکر خان،ولایت حسین خان،ایاز خان کا کہنا ہے کہ اسمبلی حلقہ مینڈھر میں کہی ہائی سکول موجود ہیںجہاں پر ہرایک مضمون کا استاد موجود نہیں۔ اور کہی پر ایک ہی روام میں استاد،بچے اور میڈے میل وہ بھی خطرے سے خالی نہیں جب بارش ہوتی ہے تو بارش کا پانی روم کے اندر داخل یہاں اس سرحدی علاقے میں ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں پورے پورے سال تک بعض مضامین کے استاد ہی نہیں ملتے۔تدریسی نظام کے ساتھ ساتھ سکولی عمارتوں کا وہ حشر ہے جس کی مثال شائد ہی کسی دوسرے خطے میں ملتی ہو کسی جگہ عمارت کی تعمیر مکمل ہی نہیں ہوتی تو فنڈز ختم ہوجاتے ہیں۔ یہاں بعض ایسی عمارتیں بھی موجود ہیں جن پر چھت نہیں پڑتی ہے تو منظور شدہ فنڈز ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔کہیں کھڑکیاں اور دروازے نہیں ہوتے ہیں۔اور آج جب ایک سال کے بعد سکول کھلے ہیں تو اس دوران بھی کہی سکول زیادہ تر بند ہی رہتے ہیں جس کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے اس ضمن میں جب زیڈ ای او بالاکوٹ محمد آمین سے بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ محکمہ جنگالات کی وجہ سے اس سکول کی عمارت کا کام روکا ہوا ہے۔ معززین اسمبلی حلقہ مینڈھرسرکار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ سنگین نوعیت کے اس معاملہ کے متعلق ایک غیر جانبدار کمیشن کے ذریعہ تحقیقات کروائی جائے کہ آخر اس اتنے بڑے جرم میں کون ملوث ہے اور یہ بھی پتہ لگایا جائے کہ ذمہ داران افیسران کی خاموشی کے پیچھے کیا محرکات کارفرماہیں۔اور عوام یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ زیر تعمیر تمام اسکولی عمارات کو بلا تاخیر مکمل کیا جائے تاکہ زیر تعلیم طلبہ و طالبات کو مزید پریشانی سے بچایا جا سکے۔
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.