یوم جمہوریہ کے موقعے پر ہزاروں کسان ٹریکٹروںسمیت دلی میںداخل ہونے میں کامیاب
کسانوںنے دلی کے لال قلعے پر پرچم لہرایا ، مرکزی زرعی قانون کو واپس لینے کے حق میں نعرے بازی
دلی پولیس اور فورسز نے سینکڑوں اور کسانوں میں پُر تشدد جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک ،100سے زائد زخمی
سرینگر/26جنوری/سی این آئی// بھارتی یوم جمہوریہ کے موقعے پر ہزاروں کسان ٹریکٹروںسمیت نئی دلی میں داخل ہوئے جہاں وہاں پہلے سے موجود پولیس و فورسزکی بھاری نفری نے ان کی پیش قدمی کو روک دیا اور کسانوں کی طرف آنسو گیس کے گولے داغے جس کے نتیجے میں وہاں کشیدگی کا ماحول پھیل گیا ۔اس بیچ کسانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں کئی کسانوں کے علاوہ متعدد پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے ہیں۔ کرنٹ نیو زآف انڈیا کے مطابق مختلف رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے انڈیا کے ہزاروں احتجاجی کسان دارالحکومت نئی دہلی میں اپنے ٹریکٹروں سمیت داخل ہو گئے ہیں۔ کسانوں کو دارالحکومت میں داخلے سے روکنے کے لیے پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے ہیں۔کسانوں نے حکومت کی جانب سے دارالحکومت کی داخلی اور اندرونی سڑکوں پر رکھے گئے کنٹینرز اور سیمنٹ کے بھاری بیریکیڈ ٹریکٹروں کے ذریعے ہٹا کر راستہ کھول دیا ہے۔پولیس کسانوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے جگہ جگہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کر رہی ہے۔ کسانوں اور پولیس کے درمیان شہر میں کئی جگہ جھڑپیں ہوئی ہیں اور اس دوران ایک کسان کی ہلاکت کی تصدیق بھی ہوئی ہے۔کسانوں کے ایک بڑا ہجوم لال قلعہ تک پہنچ گیا ہے اور سینکڑوں مظاہرین قلعہ کی فصیل کے اس مقام پر کھڑے ہیں جہاں روایتی طور پر یوم کے روز قومی پرچم لہرایا جاتا ہے۔یاد رہے کہ انڈیا کے 72ویں یومِ جمہوریہ کے موقع پر دارالحکومت نئی دہلی میں کسان ٹریکٹر ریلی کا انعقاد کر رہے ہیں۔ اس ریلی کو ٹریکٹر پریڈ کا نام دیا گیا ہے۔پنجاب ہریانہ، مغربی اتر پردیش، راجستھان اور کئی دیگر ریاستوں سے ہزاروں کسان اپنے ٹریکٹر لے کر دلی کے نواح میں پہنچ چکے ہیں اور اب وہ مختلف اطراف سے دارالحکومت میں داخل ہو رہے ہیں۔ دارالحکومت میں اس وقت موجود ٹریکٹروں کی تعداد ہزاروں میں بتائی جا رہی ہے۔ کسان اس ریلی کو ’کسانوں کی طاقت‘ کا مظاہرہ قرار دے رہے ہیں۔واضح رہے کہ انڈیا کے کسان حکومت کی جانب سے بنائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف گذشتہ دو ماہ سے احتجاجی دھرنا دیے بیٹھے۔ یہ احتجاج دلی کے نواح میں تین مختلف مقامات پر جاری ہے جس میں ہزاروں کی تعداد کسان اور ان کے خاندان شریک ہیں۔اْن کا مطالبہ ہے کہ یہ متنازع قوانین واپس لیے جائیں کیونکہ انھیں خدشہ ہے کہ ان سے انھیں اپنے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں مل سکے گا اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں کا قبضہ ہو جائے گا۔مختلف کاشتکار تنظیموں نے حکومت کو یقین دلایا ہے کہ ان کی ٹریکٹر ریلی مکمل طور پر پْرامن ہو گی اور ٹریکٹروں پر کوئی سیاسی پرچم نہیں لہرایا جائے گا۔پولیس نے کسانوں کو اس ریلی کے لیے شہر کے تین نواحی علاقوں میں محدود پریڈ کی اجازت دی ہے لیکن کسان دلی کا احاطہ کرنے والی مرکزی رنگ روڈ پر ریلی نکالنے پر مصر ہیں۔واضح رہے کہ انڈیا میں یوم جمہوریہ کے موقع پر پریڈ میں مختلف فوجی دستے مارچ کرتے ہیں اور ملک کی مختلف ریاستوں کی ثقافت کی جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔ اس پریڈ میں جنگی ساز و سامان کی نمائش کے ذریعے ملک کی جنگی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا جاتا ہے۔کسانوں کی ریلی قومی ریلی کے بعد منعقد ہو گی۔ اس دن کی مناسبت سے انڈین دارالحکومت اور اس کے اطراف میں ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔یہ ٹریکٹر ریلی ٹیکری، غازی پور اور شنگھو سرحد سے دلی میں داخل ہو گی۔ ابھی تک احتجاجی کسانوں کو دلی داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔حکومت نے پہلے ٹریکٹر ریلی کی اجازت نہیں دی تھی لیکن کسانوں کو کسی تشدد کے بغیر ریلی سے روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ ٹریکٹر ریلی کی محدود راستوں پر اجازت دی گئی ہے۔پنجاب کے کسان ترنجیت سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ’ہم یہ ٹریکٹر ریلی اس لیے نکال رہے ہیں کہ حکومت کے سامنے پر امن طریقے سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت لاکھ کوشش کر لے، توپیں لگا دے، رکاوٹیں کھڑی کر دے لیکن اب وہ ہمیں نہیں روک پائے گی۔‘مدھیہ پردیش کی ایک خاتون کسان رہنما پوتر کور کا کہنا تھا کہ ٹریکٹر ریلی سے یوم جمہوریت کے جشن میں کسانوں کی بھی شمولیت ہو گی۔ ’آج بہت بڑا دن ہے۔‘کسانوں کا خیال ہے کہ وہ اتنے دنوں سے دھرنے پر بیٹھے ہیں، ہڑتال پر بیٹھے ہیں تو سب مل کر اسے ٹریکٹر ریلی کی شکل میں منائیں کیونکہ ٹریکٹر کسان کا سب سے اہم آوزار ہے۔‘ہریانہ کے کسان اجیت شرما حکومت پر کافی برہم ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’آزادی کے بعد یہ پہلی بار ہے جب کسان اس طرح بے بس ہوئے ہیں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ یہ حکومت سرمایہ داروں کے ہاتھوں کھیل رہی ہے۔‘اناج کی مقررہ قیمت کی قانونی ضمانت کے مطالبے پر زور دینے کے لیے ہزاروں کسان ممبئی کے آزاد میدان میں بھی جمع ہیں۔ آج ملک کی مختلف ریاستوں میں بھی پریڈ کے بعد کسانوں کی حمایت میں جلسے جلوس کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا ہے کہ کسانوں کو یوم جمہوریہ کے موقع پر ریلی نہیں کرنی چاہیے تھی اور وہ کسی اور دن یہ ریلی کر سکتے تھے۔اس دوران کسان یونیینز نے اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت نے تینوں زرعی قوانیں واپس نہیں لیے تو وہ یکم فوری کو عام بجٹ پیش کیے جانے کے روز پارلیمنٹ تک مارچ کریں گے۔مجموعی طور پر یہ اصلاحات زرعی اجناس کی فروخت، ان کی قیمت کا تعین اور ان کے ذخیرہ کرنے سے متعلق طریقہ کار کو تبدیل کرنے کے بارے میں ہیں جو ملک میں طویل عرصے سے رائج ہیں اور جس کا مقصد کسانوں کو آزاد منڈیوں سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔نئے قوانین کے تحت نجی خریداروں کو یہ اجازت حاصل ہو گی کہ وہ مستقبل میں فروخت کرنے کے لیے براہ راست کسانوں سے ان کی پیداوار خرید کر ذخیرہ کر لیں۔پرانے طریقہ کار میں صرف حکومت کے متعین کردہ ایجنٹ ہی کسانوں سے ان کی پیداوار خرید سکتے تھے اور کسی کو یہ اجازت حاصل نہیں تھی۔ اس کے علاوہ ان قوانین میں ’کانٹریٹک فارمنگ‘ کے قوانین بھی وضع کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے کسانوں کو وہی اجناس اگانا ہوں گی جو کسی ایک مخصوصی خریدار کی مانگ کو پورا کریں گی۔سب سے بڑی تبدیلی یہ آئے گی کہ کسانوں کو اجازت ہو گی کہ وہ اپنی پیداوار کو منڈی کی قیمت پر نجی خریداروں کو بیچ سکیں گے۔ ان میں زرعی اجناس فروخت کرنے والی بڑی کمپنیاں، سپر مارکیٹیں اور آئن لائن پرچون فروش شامل ہیں۔اس وقت انڈیا میں کسانوں کی اکثریت اپنی پیداوار حکومت کی زیر نگرانی چلنے والی منڈیوں میں ایک طے شدہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔یہ منڈیاں کسانوں، بڑے زمینداروں، آڑھتیوں اور تاجروں کی کمیٹیاں چلاتی ہیں جو کسانوں اور عام شہریوں کے درمیان زرعی اجناس کی ترسیل، ان کو ذخیرہ کرنے اور کسانوں کو فصلوں کے لیے پیسہ فراہم کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔یہ ایک پیچیدہ عمل ہے جس کے کچھ قواعد اور اصول ہیں اور جس میں ذاتی اور کارروباری تعلقات کا بھی بہت عمل دخل ہے۔۔نئی اصلاحات کہنے کی حد تک تو کسانوں کو یہ سہولت فراہم کرتی ہیں کہ وہ روایتی منڈیوں سے ہٹ کر بھی اپنی پیداوار فروخت کر سکتے ہیں۔ابھی تک واضح نہیں کہ اس پر حقیقی طور پر کس طرح عمل ہو گا۔ انڈیا کی بہت سی ریاستوں میں اب بھی کسان اپنی پیداوار نجی خریداروں کو فروخت کر سکتے ہیں لیکن یہ قوانین اس کو قومی سطح پر لے جائیں گے۔کسانوں کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہے کہ اس سے آڑھت کی منڈیاں ختم ہو جائیں گی اور ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ رہ جائے گا۔ آڑھت سے مراد لین دین کروانے والا شخص یا مڈل مین ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اگر انھیں نجی خریدار مناسب قیمت ادا نہیں کریں گے تو ان کے پاس اپنی پیداوار کو منڈی میں فروخت کرنے کا راستہ نہیں ہو گا اور ان کے پاس سودے بازی کرنے کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہے گا۔حکومت کا کہنا ہے کہ منڈیوں کا نظام جاری رہے گا اور وہ کم از کم امدادی قیمت جسے (ایم ایس پی) بھی کہا جاتا ہے اسے ختم نہیں کیا جا رہا۔ لیکن کسان اس پر یقین نہیں رکھتے۔
Comments are closed.