وادی کشمیر کے نوجوانوں میں خود کشی کا بڑھتا رجحان ۔ اہلیان وادی پریشان

سمارٹ فون کا کثرت سے استعمال، اقتصادی بدحالی اور سماجی نابرابر موجب

سرینگر/20جنوری: وادی کشمیر میں بھی اب خود کشی کا رجحان بڑھتا ہی جارہا ہے اور معصوم افراد اپنی قیمتی جانوں کو ضائع کر رہے ہیںخاص کر نوجوانوں میں خود کشی کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے جو ذی حس طبقہ کیلئے ایک سنجیدہ مسئلہ ہے ۔گزشتہ ایک برس کے دوران درجنوں نوجوانوں نے مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی زندگی کو ختم کردیا ہے ۔یوٹی میں جہاں نامسائد حالات کے دوران تشدد آمیز واقعات نے شہریوں کی جان لی وہی خود کشی کے واقعات میں بھی ہوش ربا اضافہ ہوا۔مشاہدے میں آیا ہے کہ وادی کے شمال و جنوب میں گزشتہ برس سے سینکڑوںایسے واقعات منظر عام پر آئے جب لوگوں نے از خود موت کو گلے لگانے کی کوشش کی جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی تھی۔اپنے والدین کی جانب سے ڈانٹ ڈپٹ کے بعد اب تک کئی نوجوانوں نے موت کو گلے لگالیا ہے جیسے پلوامہ، سوپور اور دیگر جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے ۔ادھر ماہرین نفسایات کا ماننا ہے کہ مسلسل تنائو کی زندگی ناقص معاشی حالات اور ’’لیوش لائف‘‘یعنی اپنی زندگی میں مہنگے چیزوں کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش خو کشی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی اصل محرکات ہیں۔اس سلسلے میں معروف معالج ڈاکٹر نثارالحسن کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے خود کشی کے واقعات کے اصل ذمہ دار وہ حالات ہیں جن سے ایک انسان مقابلہ کرنے میں ناکام ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر چہ جان سب کو عزیز ہوتی ہے اور کوئی بھی شخص اس کو ختم نہیں کرنا چاہتا تاہم بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کو لگتا ہے کہ وہ ان حالات کے سامنے بے بس ہے اور وہ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ڈاکٹر نثارذہنی تنائو اورپر آشوب ماحول خود کشی کی ایک اور وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور میں مقابلوں کے پیچھے اندھی دوڑ اور سماج سے دوری بھی اس کی ایک وجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ برس قبل اگر کسی شخص کو کوئی گھریلو یا ذاتی مسئلہ درپیش آتاتھا تو وہ اپنے دوستوں،پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ اُٹھاتا تھا جو اس کے دکھ و درد اور مسئلے کو غور سے سنتے اور اس شخص کو مشکل سے نکالنے کیلئے کوششیں کرتے تھے جس اسے کئی مرتبہ اس مشکل سے باہر نکلنے کی راہ بھی ملتی تھی اور اس کے دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا تھا تاہم اب انفرادی زندگی اور سماج کی دوری سے یہ معاملات ایک شخص کے دل میں ہی پیوست ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ دل برجستہ اور مایوس ہوکرایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو اس کی زندگی ختم کردیتی ہے لیکن مسائل جوں کے توں رہتے ہیں۔ ڈاکٹر نثارالحسن کا مزید ماننا ہے کہ موجودہ دور میں بڑھتے اخراجات اور بے روزگاری کا ایک سنگین مسئلہ ہے جس کے نتیجے میں خود کشی کے واقعات میں اضافہ ہوگیا ہے خاص کر خواتین میں سب سے زیادہ خود کشی کے رجحانات اس لئے سامنے آتے ہیں کیونکہ صنف نازک زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اور ماحول و حالات کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے کمزور ہوتی ہے تاہم گزشتہ ایک برس میں خواتین کے مقابلے میں مردوں کی جانب سے ہی خود کشی کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں اور اس کی سب سے بڑی وجہ سماجی معاملات، آمدن کی کمی اور گھریلو ضروریات کو پورا نہ کرنا ہے۔

Comments are closed.