ایڈوکیٹ بابر قادری کی ہلاکت میں پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی کارورائی

سرینگر سنٹرل جیل میں قید دو قیدیوں سمیت پانچ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی

سرینگر/17دسمبر/سی این آئی// یڈوکیٹ بابر قادری کی ہلاکت کے معاملے میں پولیس کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے ایک اہم پیش رفت کے تحت ابھی تک پانچ مشتبہ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے جن میں دو سرینگر سنٹرل جیل میں پہلے ہی دیگر مقدموں کے تحت قید ہیں۔سی این آئی کے مطابق ساں رواں کے ماہ ستمبر کی 24تاریخ کی شام شہر خاص کے حول علاقے میں نا معلوم مسلح بندوق برداروں نے ایڈوکیٹ بابر قادری پر گولیاں چلائی اور اس کو ابدی نیند سلا دیا تھا ۔ ایڈوکیٹ بابر ی قادری کی ہلاکت کے بعد پولیس نے اس معاملے کی تحقیقات کیلئے ایس پی حضرت بل کی قیادت میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی تھی۔ اور تحقیقات کے دوران ٹیم نے ابھی تک پانچ افراد کی گرفتاری عمل میں لائی ہے جن میں دو ایسے ہے جو سرینگر کے سنیٹرل جیل میں قید ہے ۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ پولیس نے عدالت سے اجازت طلب کرکے ان کو حراست میں لیا ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ان افراد کی شناخت ہتمولہ کپواڑہ کے منیر عزیذ وار المعروف قاری اور سرینگر کے مضافات پارمپورہ کے توسیف احمد شاہ کے بطور کی گئی ہے۔ یہ دونوں مشتبہ افراد سنٹرل جیل میں بالترتیت عسکریت پسندی اور قتل کے الزام میں قید ہے۔ان کے علاوہ پولیس نے سرینگر کے خانیار کے شاہد شفیع میر، نوہٹہ کے زاہد فاروق خان اور سرینگر کے ہی آصف بٹ کو اس کس کے تعلق سے گرفتار کیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے کہ زاہد فاروق پر پانچ اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد پبلک سیفٹی ایکٹ عائد کرکے قید کیا گیا تھا اور انکو بعد میں رہا کیا گیا تھا۔ ان پر پتھر بازی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔پولیس کا کہنا ہے ان تینوں افراد کی شناخت بابر قادری کے اہل خانہ نے ہی ہے اور انکو 26 دسمبر تک جوڈیشل ریمانڈ میں سنٹرل جیل میں رکھا گیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان تینوں افراد نے یہ انکشاف کیا ہے کہ منیر اور توسیف کی ہدایت پر ہی انہوں نے مبینہ طور بابر قادری کو ہلاک کیا تھا۔قابل ذکر ہے کہ معروف وکیل بابر قادری کو نامعلوم بندوق برداروں نے 24 ستمبر کو انکی سرینگر کے شہر خاص کے حول رہایش گاہ میں گولیوں سے ہلاک کیا تھا۔

Comments are closed.