وادی میں اقتصادی بحران ،تاجر اور کاروباری افراد پریشان حال

منسوخی دفعہ 370اور کوروناوائرس کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں متاثر ،سرکاری سطح پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت

سرینگر /7دسمبر / کے پی ایس : وادی کشمیر میں منسوخی دفعہ 370 سے ہڑتال وبندشوں اور کوروناوائرس کی وجہ سے لاک ڈاوان نے اقتصادی بحران کھڑا کیا ہے ۔کیونکہ 5اگست 2019سے تجارتی سرگرمیاں کافی متاثر ہوئیں۔اگر چہ لاک ڈاون کے خاتمہ کے بعد کاروباری سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوئین لیکن مجموعی طور لوگوں کے پاس وہ سکت باقی نہیں رہی ہے جس سے وہ جم کر خریداری کر سکیں گے۔ان بازار میں جب آجکل جاتے ہیں جن میں ایک سال قبل اتنا رش ہوا کرتاتھا کہ پائوں ڈالنے کی گنجائش نہیں ہوتی تھی لیکن آجکل وہ بازار سنساں اور خاموش لگ رہے ہیں اور دکاندار خریداروں کی تلاش میں دکانوں سے نیچے آکر سڑکوں پر ساز وسامان سمیت خیمہ زن ہوتے ہیں ۔جبکہ اس سے پہلے خریداروں کو دکان تک رسائی لینے کیلئے کافی تکدو کرنی پڑتی ہے لیکن حالات کروٹ بدلی ۔اسی طرح سے غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ہزاروں ملازمین محنت ومشقت کرکے اپنا روزگار چلاتے تھے لیکن ان اداروں میں گذشتہ ایک سال سے مسلسل خسارہ کی وجہ سے ان ملازمین کا روز گار بھی متاثر ہوا ان کی تنخواہیں یا تو کاٹ دی گئی یا ادارہ سے برطرف کیا گیا جس کے نتیجے میں وہ روز گار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور وہ خریداری نہیں کرسکتے ہیں ۔کئی صنتیں یہاں کی اقتصادی بحالی کے لئے اہم ذرایعے تھے لیکن وہ ذرایعے بھی خسارہ اور نقصان کی شکار ہوئے اور یہ بھی اقتصادی بحران کی ایک اہم وجہ ہے ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے دکاندار عبدالرشید وانی نے بات کی کہ 5اگست 2019سے لیکران کی تجارت کافی متاثر ہے اور صرف قرضہ داروں کا قرضہ چکانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں جبکہ خریداروں کی ان کو ہروقت تلاش رہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران ان کی دکانیں بند رہیں اور ان لاک کے بعد اب اگر چہ دکانیں کھلی ہیں لیکن خریداروں کے پاس وہ سکت باقی نہیں ہے کہ وہ ان سے کپڑا یا دوسرے اشیاء خریدسکیں ۔انہوں نے کہا کہ جہاں دکاندار کپڑے کے ایک میٹر میں 30فیصدی بھی نافع کماتا تھا وہیں وہ اب 5فیصدی پر بھی راضی ہے لیکن اس کے باوجود بھی خریدار کم اور قرضدار زیادہ ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے کوئی خریدار 50ہزار روپے کو دکاندار سے اشیا ء لیتا تھا اور 50 فیصدی ادھار رکھتا تھا ۔لیکن اب ’’نو نقد نو تیرہ ادھار ‘‘ والا معاملہ ہے ۔یہ بھی تجارتی سرگرمیوں میںکمی ہونے کی ایک وجہ بتاسکتے ہیں ۔اسی طرح سے نجی ادارے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص ارشاد احمد کے ساتھ بات کی تو موصوف نے بتایا کہ ان کے ادارے کو ماہنا بنیادوں پر لاکھوں روپے کی آمدنی کاسلسلہ جاری رہتا تھا جس سے وہ ادارے میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات پورا کرتے تھے اور نفع بخش کام سے وہ مطمئن تھا ۔لیکن 5اگست سے ان کا ادارہ خسارے کی جانب گامزن ہے جس کے نتیجے ادارہ ملازمین کو بھر پور تنخواہیں واگذار کرنے سے قاصر ہے اور اخراجات بھی پورے نہیں ہوجاتے ہیں ۔گویا مجموعی طور اقتصادی حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں ۔اب چونکہ کوروناوائرس کے ہوتے ہوئے کاروباری سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں ۔اس سلسلے میں سرکار پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ٹیکس ،لون اور سرکاری اخراجات کے ضمن میں فیس میں رعایت دی جائے اور کاروباری سرگرمیوں کے دوران تاجروں اور ادارہ کے منتظمین کیلئے مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے تاکہ یہاں کی اقتصادی حالت بحال ہوسکے اور لوگ راحت رسانی سے اپنی بسر کرسکیں ۔

Comments are closed.