ہندوپاک کشیدگی منقسم جموں کشمیر کے عوام کیلئے دردناک عذاب؛ ایل او سی پر آمدورفت تاحال معطل، منقسم کشمیری خاندان اور تاجر مایوس

سرینگر/23نومبر/سی این آئی// پاکستان اور بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کو ملانے والی لائن اٖف کنٹرول (ایل او سی) پر تجارت اور بس سروس کی تاحال معطلی کے باعث منقسم خاندان اور تاجروں کی مایوسی بڑھتی جا رہی ہے۔کرنٹ نیوز آف انڈیا مانیٹرنگ کے مطابق بھارت اور پاکستان نے اپریل 2005 میں ایل او سی پر دونوں اطراف میں بسنے والے منقسم خاندانوں کو ملانے اور تجارت کے فروغ کے لیے بس سروس اور تجارت کی اجازت دینے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم دونوں ممالک کے کشیدہ تعلقات کے باعث یہ تجارت تنازعات کا شکار رہی ہے۔ہفتے میں ایک بار سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان چلنے والی اس بس سروس کو جسے ’ کاروانِ امن‘ کا نام دیا گیا تھا۔ دونوں ملکوں نے اعتماد سازی کے لیے اٹھایا گیا سب سے بڑا قدم قرار دیا تھا۔چودہ ماہ بعد یعنی جون 2006 میں ہفتہ وار بس سروس کراسنگ پوائنٹ پونچھ اور راولا کوٹ کے درمیان بھی چلنے لگی تاکہ منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملنے کے لیے سفر کرنے میں آسانیاں ہوں۔ بعد ازاں دونوں ملکوں کے درمیان ان ہی راستوں کے ذریعے تجارت بھی شروع کر دی گئی۔اکتوبر 2008 میں’بارٹر سسٹم‘یعنی چیز کے بدلے چیز نظام کے تحت کی جانے والی کسٹم سے پاک یہ تجارت شروع ہی سے کئی تنازعات کا شکار رہی۔بھارت نے کئی مرتبہ الزام لگایا کہ تجارت کی آڑ میں منشیات کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر اسمگل کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت ایل او سی پر تعینات بھارت اور پاکستان کی افواج کے درمیان آئے دن ہونے والی جھڑپوں کی وجہ سے بھی متاثر رہی۔اٹھارہ اپریل 2019 کو بھارتی وزارت داخلہ نے پاکستان میں موجود چند عناصر پر تجارتی راستوں کا غلط استعمال کرنے کا الزام لگاتے ہوئے تجارت کو تا حکم ثانی معطل کرنے کا اعلان کر دیا۔بھارتی وزارتِ داخلہ کا الزام تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت سخت گیر ریگولیٹری نظام کے قیام تک بند رہے گی اور دعویٰ کیا تھا کہ ایل او سی تجارت کومعطل رکھنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اس کے ذریعے جموں و کشمیر کے لوگوں کے فائدے کے لیے صرف جائز تجارت ہو۔

Comments are closed.