حکومت ہند کی طرف متعارف کئے گئے نئے اراضی قوانین ، سیاسی جماعتیں سیخ پا ; نئے اراضی قوانین غیر جمہوری اور غیر آئینی، جموں وکشمیر برائے فروخت /عمر عبداللہ
جموں کشمیر اپنی پارٹی ملک میں اعلی قیادت کے سامنے اپنے تحفظات اٹھائے گی/ الطاف بخاری
سرینگر/27اکتوبر: نیشنل کانفرنس نے حکومت ہند کی طرف متعارف کئے گئے نئے اراضی قوانین کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی زمین کو محفوظ رکھنے اور عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنے کے عزم کو دہرایا ہے۔ ادھر جموں کشمیر اپنی پارٹی سمیت دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی مرکزی قوانین پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے ۔ اپنی پارٹی کے صدر الطاف بخاری نے کہا کہ پارٹی جموں و کشمیر میں زمین کے حقوق کے حوالے سے یونین حکومت کی طرف سے آج جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن پر عمل کرے گی اور ملک میں اعلی قیادت کے سامنے اپنے تحفظات اٹھائے گی۔سی این آئی کے مطابق نیشنل کانفرنس نے حکومت ہند کی طرف متعارف کئے گئے نئے اراضی قوانین کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی زمین کو محفوظ رکھنے اور عوام کے حقوق کی بحالی کیلئے جدوجہد کرنے کے عزم کو دہرایا ہے۔ پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ نے جموں و کشمیر میں اراضی ملکیت قانون میں ترمیم کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ غیر زرعی اراضی کی خریداری اور زرعی اراضی کی منتقلی کو آسان بنا کر جموں وکشمیر کو اب فروخت کرنے کیلئے رکھا گیا ہے، جو غریبوں اور کم اراضی رکھنے والے عوام کیلئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ہند نے نئے متعارف کئے قوانین میں ڈومیسائل کی صورت میں رکھی گئی تھوڑی سی رعایت کا بھی خاتمہ کیا ہے۔ عمر عبداللہ نے کہاکہ حد تو یہ ہے کہ بھاجپا نے لداخ ہل ڈیولپمنٹ انتخابات کے نتائج آنے کا انتظار کیا اور ان انتخابات میں جیت حاصل کرنے کے دوسرے ہی دن لداخ کو فروخت کرنے کیلئے رکھ دیا۔ لداخیوں کو بی جے پی کی یقین دہانیوں پر بھروسہ کرنے کا یہی صلہ ملا۔ عمر عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کی اراضی کو اس طرح سے فروخت کیلئے رکھنا اُن آئینی یقین دہانیوں اور معاہدوں سے انحراف کرنا ہے جو جموں و کشمیر اور یونین انڈیا کے درمیان رشتوں کی بنیاد ہیں۔ یہ اقدامات اُس بڑے منصوبے کا حصہ ہے جس کا مقصد کشمیر کی شناخت ، انفرادیت اور اجتماعیت کو ختم کرنا ہے۔ نئے اراضی قوانین کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے این سی نائب صدر نے کہا کہ یہ سارے اقدامات تنظیم نو ایکٹ2019کے تحت کئے جارہے ہیں، جو جمہوری اور آئینی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمل میں لایا گیا تھا اور اس دوران تینوں خطوں کے عوام کی ناراضگی اور تحفظات کا بھی پاس ولحاظ نہیں رکھا گیا، جو پہلے سے ہی اس اقدام کو آبادیاتی تناسب بگاڑنے کی سازش سمجھ رہے تھے۔ ایسے اقدامات سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ نئی دلی کو جموں وکشمیر کے لوگوں کے احساسات اور جذبات کیساتھ کوئی لینا دینا نہیں بلکہ ان کو یہاں کی زمین کیساتھ مطلب ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کو آئین ہند سے جو حقوق حاصل ہوئے تھے وہ ایک ملک نے جموں وکشمیر کے عوام کیساتھ وعدے کئے تھے اور ان آئینی گارنٹیوں اور وعدوں سے انحراف کرکے بھاجپا جموںوکشمیر سے زیادہ اپنے ملک کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ ادھر جموں کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے منگل کے روز جموں و کشمیر میں ریاست کی بحالی کے ساتھ اپنی رہائشیوں کے لئے زمین اور ملازمتوں پر جامع ڈومیسائل حقوق کے ساتھ اپنی پارٹی کے موقف کا اعادہ کیا۔بخاری نے کہا کہ پارٹی جموں و کشمیر میں زمین کے حقوق کے حوالے سے یونین حکومت کی طرف سے آج جاری کردہ گزٹ نوٹیفکیشن پر عمل کرے گی اور ملک میں اعلی قیادت کے سامنے اپنے تحفظات اٹھائے گی۔”ایک دن سے ہی ہماری پارٹی کا موقف ان اہم معاملات پر بہت واضح ہے۔ لوگوں کو سمجھنا چاہئے کہ ہمارے آئینی طور پر ضمانت دیئے گئے حقوق بہت پہلے ہی چھین لئے گئے ہیں اور جو کچھ باقی تھا اسے 5 اگست 2019 کو چھین لیا گیا تھا جب آرٹیکل 370 اور 35-A کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ تاہم ، اپنی پارٹی لوگوں کے حقوق کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے مفادات کے خلاف ہر اقدام کی مزاحمت کرے گی۔
Comments are closed.