غیرقانونی طریقے سے ہم سے بہت کچھ چھینا گیا؛ کوئی حکومت ہمیشہ نہیں رہتی ، ہم انتظار کریںگے /عمر عبداللہ

سرینگر:عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ دفعہ 370کی منسوخی کے ساتھ ساتھ ہم سے بہت کچھ چھینا گیا ہے جس کے خلاف ہم آواز اُٹھارہے ہیں ۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ کوئی بھی حکومت ہمیشہ نہیں رہتی اسلئے ہم انتظار کریں گے اور اپنے حق کی لڑائی جاری رکھیں گے ۔ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ گرفتاریوں ، دھونس و دبائو کا دبائو جلد ختم ہوگا اور وقت بدلتے دھیر نہیں لگتی ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جموں وکشمیرسے آرٹیکل کو ہٹائے جانے کے بعد حراست میں لئے گئے ریاست کے اہم لیڈروں کی اب رہائی ہو چکی ہے۔ ان لیڈروں میں نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ، نائب صدر عمر عبداللہ اور پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی شامل ہیں۔ جمعرات کو فاروق عبداللہ کے گھر پر ان لیڈروں نے میٹنگ کی جہاں گپکر سمجھوتے پر چرچا ہوئی۔ وہیں، 221 دنوں تک نظربند رہنے کے بعد عمر عبداللہ نے پہلی بار انٹرویو دیا ہے۔ اس میں عبداللہ نے کہا۔ ‘ آرٹیکل 370 کے لئے جدوجہد جاری رہے گی۔ ہماری لڑائی سپریم کورٹ میں ہے۔ کوئی بھی حکومت ہمیشہ کے لئے نہیں رہتی۔ ہم انتظار کریں گے۔ ہم نہیں مانیں گے۔عمر عبداللہ نے ’انڈیا ٹوڈے‘کو دئیے گئے انٹرویو میں یہ باتیں کہی ہیں۔ انہوں نے کہا ‘ ہم اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ آرٹیکل 370 کے خلاف پہلے بھی آواز اٹھائی تھی اور آج بھی اٹھا رہے ہیں۔ مرکز کا فیصلہ ریاست کے لوگوں کے مفاد میں نہیں ہے’۔ عمر عبداللہ نے کہا ‘ گپکر گروپ کی میٹنگ 4 اگست 2019 کو شروع ہوا ایک سلسلہ ہے۔ آج ہم اسے ایک مناسب نام اور ایک واجب ایجنڈا دینے کے لئے ملے ہیں۔ یہ موقع پرست گٹھ بندھن نہیں ہے۔ لیکن یہ سیاسی ہے۔ اسے آپ سماجی گٹھ بندھن نہیں کہہ سکتے۔عمر عبداللہ نے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کو ایک بار پھر غیر آئینی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ‘ غیر آئینی اور غیر قانونی طور پر ہم سے جو چھین لیا گیا تھا، اسے واپس پانے کا یہ ایک آئینی اور پرامن طریقہ ہے۔ وہیں، چین کے جموں وکشمیر کے داخلی معاملوں پر کمنٹ کرنے پر عمر عبداللہ نے طنز بھرے لہجے میں کہا کہ کیا یہ آرٹیکل 370 چین کی مدد سے واپس آ جائے گا؟ یہ تو بی جے پی ترجمان کا فارمولا ہے۔یاد رہے4 اگست 2019 کو فاروق عبداللہ کے گپکر واقع گھر پر ایک کل جماعتی میٹنگ ہوئی تھی۔ یہاں ایک تجویز جاری کی گئی تھی جسے گپکر سمجھوتہ کہا گیا۔ اس کے مطابق پارٹیوں نے فیصلہ کیا کہ وہ جموں وکشمیر کی پہچان، اٹانومی اور اس کے خصوصی درجہ کو بنائے رکھنے کے لئے اجتماعی طور پر کوشش کریں گے۔

Comments are closed.