جموں کشمیر سمیت ہندوستان کے 76فیصدی بچے آن لائن تعلیمی سرگرمیوں سے محروم
متاثرہ طلبہ میں 49 فیصد لڑکیاں ہیں۔یونیسف کے سروے میں انکشاف
سرینگر/30اگست: یونیسف نے کہا ہے کہ تعلیمی ادارے بند ہونے کے نتیجے میں آن لائن تعلیمی سے ہندوستان کے 76فیصدی بچے محروم ہے کیوں کہ ہندوستان میں صرف 24فیصدی خاندانوں میں ہی انٹرنیٹ کی سہولیات دستیاب ہے جبکہ متاثرہ طلبہ میں 49فیصدی لڑکیاں ہیں ۔ کرنٹ نیو زآف انڈیا کے مطابق یونیسیف کے سروے میں انکشاف ، آن لائن تعلیمی سرگرمیوں سے ہندوستان کے 76 فیصدی بچے محروم ہیں۔یونیسف انڈیا کی نمائندہ یاسمین علی حق نے کہا : "ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی بحران کا سب سے زیادہ اثر حساس کلاسوں اور بچوں پر پڑتا ہے۔ اسکول بند ہیں ، والدین کے پاس کام نہیں ہے اور خاندانوں کیلئے مسائل ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم درہم برہم ہوگئی ہے۔کورونا کی وبا پوری دنیا پر اثر انداز ہوئی ہے۔ معیشت کساد بازاری کا سامنا کررہی ہے تو وہیں بحران کے وقت سب سے زیادہ حساس طبقات میں بچوں پر سب سے زیادہ برا اثر پڑا ہے۔ جہاں دنیا کے 463 ملین بچے ڈیجیٹل تعلیم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں ، جس کی وجہ سے دنیا کے تمام ممالک بچوں کو اسکولوں میں لانے کے بڑے چیلنج کا سامنا کررہے ہیں تو ہندستان کے حالات بھی الگ نہیں ہیں اور اب تک بچے اسکولوں میں لوٹنے کے لئے حکومت کی اجازت اور مناسب وقت کا انتظار کررہے ہیں۔ یونیسیف کے ذریعہ کئے گئے سروے میں بتایا گیا کہ ہندوستان میں صرف 24 فیصد خاندانوں کے پاس ہی انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ جبکہ کورونا کی وبا کی وجہ سے ہندوستان میں پندرہ لاکھ سے زیادہ اسکول بند ہیں ، جس میں پرائمری اور سیکنڈری اسکول شامل ہیں۔اسکول کے 288 ملین یعنی 28.6 کروڑ بچے متاثر ہوئے ، جن میں 49 فیصد لڑکیاں ہیں۔ نیز60 لاکھ بچے کورونا وبا سے بھی پہلے اسکول نہیں جا رہے تھے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ حکومت ہند اور ریاستی حکومتوں نے گھروں میں بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے لئے ڈیجیٹل اور غیر ڈیجیٹل ذرائع کا استعمال کیا ہے۔ دیکشا پورٹل (آن لائن) ، دور درشن اور سویم پربھا (ٹی وی چینل) اور قومی اوپن اسکولنگ جیسے بہت سے اقدامات اٹھا ئے جاچکے ہیں۔ لیکن ہندوستان کو ابھی بھی متبادل تعلیمی کیلنڈر ، ڈیجیٹل لرننگ کے لئے نصاب ، ریاستی سطح پر اصلاحات اور اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ تعلیمی مواد کی رسائی اور ڈیجیٹل خامیوں تکنیکی دقتوں ، انٹرنیٹ کی کم رفتار سے لے کر بہت سی مشکلات کی وجہ سے یہ ضروری ہے خاص طورپر شہروں سے دور دیہی اور دور دراز کے علاقوں کے لئے مسئلہ ٹیڑھا ہے۔اس کے علاوہ لڑکے لڑکی میں فرق اور ذات پات کی تفریق سے لیکر کئی اور چیلنجز ہیں۔ دیہی اور شہری علاقوں میں ایک بہت بڑا فرق ہے۔ درمیانی اور کم آمدنی والے گروپ معاشی طور پر پسماندہ خاندانوں کے لئے دور دراز کی تعلیم کی وجہ سے سماجی عدم مساوات اور تعلیم کے معیار میں فاصلہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ رپورٹ کہتی ہے کہ پسماندہ طبقوں کے طلبہ اور لڑکیوں کے پاس اسمارٹ فون دستیاب نہیں ہیں اور یہاں تک کہ اگر وہ ہوں تو ، انٹرنیٹ رابطہ اچھا نہیں ہے۔ اکثر معیاری تعلیمی مواد ان کی اپنی زبان میں دستیاب نہیں ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل ڈیجیٹل لرننگ کے لئے ضروری ہیں جس سے سیکھنے میں عدم مساوات کی سطح مزید بڑھ جاتی ہے۔یونیسف انڈیا کی نمائندہ یاسمین علی حق نے کہا : "ہم جانتے ہیں کہ کسی بھی بحران کا سب سے زیادہ اثر حساس کلاسوں اور بچوں پر پڑتا ہے۔ اسکول بند ہیں ، والدین کے پاس کام نہیں ہے اور خاندانوں کیلئے مسائل ہیں۔ جس کی وجہ سے بچوں کی تعلیم درہم برہم ہوگئی ہے۔ ڈیجیٹل تعلیم تک رسائی محدود ہے اور اس کے لئے بہت سارے چیلنجز ہیں۔ ایسی صورتحال میں برادریوں ، والدین اور رضاکاروں کا ان مسائل کو حل کرنے میں تعاونمشترکہ نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔ ملک گیر اور مقامی لاک ڈاون کی وجہ سے اسکولوں کو بند کردیے جانے کی وجہ سے تقریبا 1.5 بلین اسکولی بچے متاثرہوئے ہیں۔ جس طریقے ڈیجیٹل انداز میں ریموٹ لرننگ کے ذریعہ تعلیم جاری ہے وہ موثر نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں پری پرائمری ، پرائمری ، لوئر سیکنڈری اور اپر سیکنڈری اسکول کے بچوں کے لئے ریموٹ لرننگ کے لئے دستیاب گھریلو ٹیکنالوجی اور آلات کی دستیابی کا تجزیہ کیا گیا ہے ، جس میں دنیا کے 100 ممالک کے اعداد و شمار شامل ہیں۔ اعداد وشمار میں ٹی وی ، ریڈیو اور انٹرنیٹ کی دستیابی اور اسکول بندش کے دوران ان فورمز پر کورس کی دستیابی کے اعداد وشمار شامل ہیں۔ لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ رپورٹ کے اعداد و شمار اسکول بند ہونے کے بعد لرننگ میں کمی کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔یونیسف نے خبردار کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ یہ حالات تب ہیں جب بہت سے ممالک میں بچوں کے پاس گھر پر ٹیکنالوجی اورانیٹرنیٹ جیسی سہولیات دستیاب ہیں ، تب بھی وہ بہت ساری وجوہات کی بنا پر پڑھنے کے قابل نہیں ہیں ، گھر پر کام ، دوسرے کام ، سیکھنے کا دباؤ ، گھروں میں مناسب ماحول نہ ہونا شامل ہے۔مشرقی اور جنوبی افریقہ کے 49 فیصدی یعنی 67 ملین بچوں کے پاس ڈیجٹیل لرننگ کی سہولت نہیں ہے جبکہ مغربی اور وسطی افریقہ میں یہ تعداد 48 فیصدی یعنی 54 ملین ہے۔ مشرقی ایشیا اور بحر الکاہل میں 20 فیصد یعنی 80 ملین بچے ، مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے 40 فیصدی یعنی 37 ملین بچے ،جنوبی ایشیا کے 38 فیصد ی یعنی 147 ملین بچے ،مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے 34 فیصدی یعنی 25 ملین ،لاطینی امریکہ فیصدی یعنی 13 ملین اور عالمی سطح پر 31 فیصدی یعنی 463 ملین بچوں کے پاس ڈیجیٹل ، ریموٹ لرننگ کے وسائل ہی نہیں ہیں۔
Comments are closed.