وادی کشمیرمیں ’’کرکٹ بیٹ‘‘ بنانے کی صنعت کی جانب سرکار کی عدم توجہی
اس صنعت سے وابستہ افراد مایوسی کے شکار ، ہزاروں افرادروزگار سے محروم
سرینگر/ 24جولائی: وادی کشمیر میںکرکٹ کے بلے بنانے کی صنعت اگرچہ 1990سے پہلے کافی ترقی میںتھی اور اس صنعت سے وابستہ افراد اچھا خاصا روزگار کماتے تھے جبکہ اس صنعت سے ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان وابستہ تھے جو اس صنعت سے روزگار حاصل کررہے تھے اور یہاں پر تیار کئے جانے والے کرکٹ بیٹ ملک و بیرون ممالک بھیج دیئے جاتے تھے لیکن اب یہ صنعت دن بدن سکڑ تی جارہی ہے اور نوجوان نسل اس صنعت کی طرف اب توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق وادی کشمیر میں دیو دار اور دیگرقسم کے درخت ہونے کی وجہ سے یہا ں پر’کرکٹ بیٹ‘ بنانے کی صنعت پھل پھول رہی تھی اور اس صنعت سے وابستہ افرادایک تو روزگار کماتے تھے اس کے ساتھ ساتھ دیگر ہزاروںنوجوانوں کو بھی روز گار فراہم کرتے تھے۔ کشمیر میں بننے والے بلے ملک کے ساتھ ساتھ بیرون ممالک بھی درآمد ہوتے تھے ۔ یہاں پر مختلف اقسام کی لکڑیوں سے چھوٹے بڑے بلے تیار کئے جاتے تھے ۔ اور 1990سے پہلے بیٹ صنعت بہت ہی مقبول تھی تاہم وادی میںحالات نامساعد ہونے کے ساتھ ہی اس صنعت کو جیسے دھیمک لگ گئی اور آہستہ آہستہ یہ صنعت ختم ہوتی چلی گئی۔ 90کی دہائی کے بعد وادی میں بیٹ بنانے کے درجنوں کارخانے بند ہوئے اور ان سے منسلک افراد بے روز گار ہوئے ۔ اس ضمن میں کئی افراد نے جو بلے بنانے کے کارخانوںمیں کام کررہے ہیں نے بتایا کہ اس وقت اگرچہ کرکٹ ایشاء میں ایک مقبول ترین کھیل بن کر اُبھرا ہے تاہم اس کے باوجود بھی کشمیر میں تیار ہونے والے بلوں کی مانگ میںکمی واقع ہوئی ہے ۔ انہوںنے اس کیلئے سرکار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہاکہ ریاست جموں و کشمیر میں آج تک جوبھی سرکاریں وجود میں آئی ہیں انہوں نے اس صنعت کونظر اندازکیا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر سرکار پوری طرح سے اس صنعت کی طرف توجہ مرکوز کرتیں تو یہاں پر لاکھوں افراد کو اس صنعت سے بلواسطہ یا بلاواسطہ روزگارملتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر ایک سیاحتی مقام ہے اور یہاں پر آنے والے سیاحوں کیلئے یہاں پر اگر بیٹ کے شوروم اگر قائم کئے جاتے تھے اس سے بیٹ بنانے والوں کو کائی مدد ملتی ۔ انہوںنے کہا کہ آج کے نوجوان بیٹ کے کارخانوں میں کام کرنے میں جی چراتے ہیںکیوں کہ انہیں لگتا ہے کہ یہ صنعت بے سود ہے اور اس میں ان کے مستقبل کیلئے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ ادھر سرکار بیٹ بنانے کی صنعت کو فروغ دینے کیلئے کاوشیں کررہی ہے ۔ اس ضمن میں گورنر کے مشیر خورشید احمد گنائی نے کہا ہے کہ کشمیر میں قائم کرکٹ بیٹ یونٹ ہزاروں نوجوانوں کو روز گار فراہم کرتے ہیں اور یہ ایک صنعت کے طور پر ابھر رہی ہے۔گذشتہ دنوں جموں اینڈ کشمیر کرکٹ بیٹ مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے ایک وفد کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مشیر موصوف نے کہا کہ سب سے پُرانی اس بیٹ صنعت کو ایک بڑی صنعت بنانے کے لئے سرکاری اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس صنعت کی بحالی کے لئے موثر اقدامات کئے جائیں تو یہ آنے والے دنوں میں ایک بہت بڑی صنعت کے طور پر اُبھر سکتی ہے۔چرچ لین سرینگر میں عوامی شکایات کے ازالے کے کیمپ کے دوران کرکٹ بیٹ مینوفیکچر کرنے والے افراد نے صلاحکار سے ملاقات کر کے انہیں اس شعبۂ کو درپیش مشکلات اور چیلنجوں سے باخبر کیا۔انہوں نے صلاحکار سے استدعا کی کہ سرکار کو اس صنعت کو فروغ دینے کے لئے منظم لائحہ عمل اختیار کرنا چاہئے۔وفد نے صلاحکار کو بتایا کہ انڈین پرئمیر لیگ کی کامیابی سے دُنیا بھر کے ساتھ ساتھ کشمیر کی صنعت بیٹ صنعت پر بھی مثبت اثرات پڑ رہے ہیں اور انہیں ملک کے مختلف کارپوریٹ اداروں سے آرڈر مِل رہے ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ وادی میں400 سے زائد کرکٹ بیٹ یونٹ کام کر رہے ہیں جبکہ جموں میں30 سے40 ایسے یونٹ کام کر رہے ہیں جو سالانہ دس کروڑ روپے کی تجارت کرتے ہیں۔وفد نے صلاحکار کو بتایا کہ آئی پی ایل سے اس صنعت پر کافی مثبت اثرات پڑے ہیں اور کرکٹ بیٹ کی مانگ میں کافی اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے صلاحکار سے اپیل کی کہ تجارت کے عمل میں آسانی پیدا کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بلوں سے لدے کئی ٹرک لکھن پور جموں میں سرکاری اجازت کے لئے درماندہ پڑے ہیں جنہیں آگے جانے کے لئے فوری اجازت دی جانی چاہئے۔انہوں نے علاقہ میںفیسلٹی سینٹر قائم کرنے کا مطالبہ کیا تا کہ سرینگر جموں قومی شاہراہ پر قائم ایسے یونٹوں کو فروغ مل سکے۔صلاحکار نے کہا کہ سرکار ان یونٹوں کو مستحکم کرنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے کیوں کہ اس شعبۂ میں ہزاروں نوجوانوں کے لئے روز گار کے مواقعے موجود ہیں۔ انہوں نے مینو فیکچرروں کو اپنے متعلقہ علاقہ جات میں زیادہ سے زیادہ بید کے درختوں کی شجرکاری کرنے کی صلاح دی تا کہ انہیں اچھی مقدار میں خام مال دستیاب ہوسکے۔
Comments are closed.