پاکستان اور انڈیا کے درمیان امن کی بڑھتی خواہش

پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی میں دونوں ممالک میں امن کی خواہش رکھنے والے عوام کی آوازیں سوشل میڈیا سے نکل کر اب دونوں اطراف کے شہروں کی سڑکوں پر بھی سنائی دے رہی ہیں۔

جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں پاکستان کے تقریبا تمام بڑے شہروں لاہور، پشاور، اسلام آباد اور دیگر میں جمعرات کے روز مظاہروں کی کال دی گئی ہے۔ انڈیا کے بڑے شہروں میں ایسے ہی مظاہرے دو مارچ کو ہوں گے۔

پاکستان انڈیا پیپلز فورم صوبہ خیبر پختونخواہ کے صدر شکیل وحید ﷲ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امن کے لیے سرگرمیاں شروع کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب دونوں ممالک کے امن پسند عوام نے دیکھا کہ لوگوں کو جنگ فوبیا میں مبتلا کرکے حالات کو اس رخ پر لے جایا جارہا ہے جہاں سے واپسی کا راستہ ہی دستیاب نہ ہو۔

انھوں نے بتایا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہمیں آگے بڑھ کر امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا چاہے اکثریت جنگ کے نعرے ہی کیوں نہ لگا رہی ہو۔

انڈیا سے آغازدوستی تنظیم کے جنرل سیکرٹری انجینئرروی نتاش کہتے ہیں کہ جب جنگ کی باتیں پاگل پن کی حد تک پہنچ گئیں، جنگ ہی کو مسائل کا حل سمجھ لیا گیا تو اس وقت دونوں ممالک کے امن پسند لوگوں نے رابطہ کرکے فیصلہ کیا کہ کم از کم وہ لوگ جو جنگ کے تباہ کن اثرات کو سمجھتے ہیں ان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔

اسی بنا پر فیصلہ ہوا کہ پہلے سوشل میڈیا پر اور پھر عملی طور پر ہم امن کی خواہش کا اظہار کریں گے۔

جنگ کس کے فائدے میں ہے ؟

دہلی کے کالج میں لیکچرار دیویکا میٹال نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جنگ تو صرف تباہی لاتی ہے۔ جدید دور کے اندر تو اس کی تباہیاں ہولناک اور خوفناک ہیں۔

جنگ سے عوام کو کوئی فائدہ ہوگا تو یہ خام خیالی ہی نہیں بہت بڑا دھوکا ہے۔ اس دھوکے میں عوام کو وہ طاقتیں مبتلا کرتی ہیں جن کی جنگ سے چاندنی ہوتی ہے۔ جن کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے اور اس اسلحے سے غریب عوام مرتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ کچھ انتہا پسندوں کا جنون تو ہوسکتا ہے مگر پاکستان اور انڈیا کے اکثریتی عوام کی خواہش ہرگز نہیں ہے۔ ہر جنگ سے پہلے اور بعد میں دونوں ممالک کے غریب عوام سے ان کی روٹی کے نوالے چھین کر اسلحہ سازوں کی جیبیں بھری گئیں۔ بس یہ ہی ساری کہانی ہے۔

شکیل وحید اﷲ کا کہناتھا کہ جنگ کا ماحول، باتیں اور دھمکیاں عوام کے لیے تو مسائل پیدا کرہی رہی ہیں ۔ مگر شاید اس سے ایک بارپھر پاکستان میں دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوجائے اور ایسا تو صرف غریب عوام سے ان کا حق چھین کر کرنا ہی ممکن ہے۔

دوسری جانب انڈیا میں ایک بار پھر آنے والے انتخابات میں ایسا ماحول پیدا کردیا جائے گا جس سے عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ جائے اور وہ صرف جنونیت، جذباتیت اور جنگ کی بنیاد پر اپنا ووٹ استعمال کرنے پر مجبور ہوجائیں۔

‘جنگ فوبیا’ کے ذمہ دار

پاکستان میں انسانی حقوق کی سرگرم کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے میڈیا اور مین سٹریم سیاسی قیادت نے اس سارے بحران کے دوران اچھاکردار ادا نہیں کیا۔

’26 فروری کو ایک انڈین ٹیلی وژن چینل دیکھتے ایسا محسوس ہوا جیسے خاتون اینکر اسکرین توڑ کر باہر نکل آئیں گی۔ ایک روز بعد ایسے ہی مناظر پاکستانی ٹی وی چینلز پر بھی نظر آہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اب جنگ کی سپہ سلاری اینکر پرسن کریں گے۔’

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی سیاسی قیادت بھی اس موقع پر صرف پوائنٹ سکورنگ کررہی ہے۔ مار دیں گے ،مر جائیں گے کی باتیں کرکے جنگی جنون پھیلایا جا رہا ہے حالانکہ اس موقع پر انھیں ہوش اور زمینی حقائق سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے کارکن اور امن کے داعی مختیار باچا کے مطابق پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر اور سرحد پار دہشت گردی کے الزامات مسائل ہیں۔

‘اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک دونوں ملکوں کے درمیان مسائل حل نہیں ہوتے اس وقت تک بہتر تعلقات استوار نہیں ہوسکتے ہیں۔ اور یہ مسائل صرف اس وقت حل ہوسکتے ہیں جب دونوں ملکوں کے اندر عوام کی ہمدرد قیادت برسر اقتدار ہو اور وہ اپنے عوام کے حق میں فیصلے کرنے کی خواہش اور صلاحیت رکھتے ہوں۔’

source: bbc.com/urdu

Comments are closed.