”پاکستان کو معلوم تھا کہ ایسا ہوگا۔ اور اب نہ تو وہ اس کا جواب دے سکتا ہے اور نہ ہی جنگ شروع کر سکتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کا سیدھا مطلب ہوگا کہ وہ ایک دہشت گرد تنظیم کو دفاع کر رہا ہے۔ ایسا کرنا اس کے لیے نقصاندہ ثابت ہوگا۔ پاکستان ہمیشہ سے کچھ نہ کچھ حرکت کرتا رہتا ہے کیونکہ یہ اس کی عادت میں شمار ہے۔” یہ نظریہ واجپئی حکومت کے دوران ریسرچ اینڈ اینالیسس وِنگ یعنی ‘را’ کے سربراہ رہے وکرم سود کا ہے۔ انھوں نے جیش محمد کے ٹھکانوں پر ہندوستانی فضائیہ کے ذریعہ بم اندازی کیے جانے کے بعد یہ اظہار خیال کیا۔
واجپئی حکومت میں 2000 سے 2003 کے درمیان ‘را’ کی سربراہی کرنے والے سود کا کہنا ہے کہ اس بار پاکستان نے ہندوستان کو لے کر غلط اندازہ لگایا کہ ہندوستان کچھ نہیں کرے گا۔ انھوں نے کہا کہ ”دراصل یہ کاہلی یا خود کو طرم خاں سمجھنے کا خمیازہ ہے جو پاکستان نے بھگتا ہے۔”
غور طلب ہے کہ منگل کو ہندوستانی فضائیہ نے پلوامہ حملے کا بدلہ لینے کے لیے پاکستان واقع جیش محمد کے ٹھکانوں پر ہوائی حملہ کیے تھے جس میں اظہر مسعود کے کئی قریبی رشتہ داروں سمیت سینکڑوں دہشت گردوں کے مارے جانے کا امکان ہے۔ ہندوستان کے خارجہ سکریٹری وجے گوکھلے نے ہندوستان کے ذریعہ کیے گئے ‘ائیر اسٹرائک’ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان کے خیبر پختونخوا کے بالاکوٹ واقع جیش کے اڈوں پر بمباری کی۔ گوکھلے نے اسے ‘نان ملیٹری پری ایمپٹیو’ کارروائی قرار دیا ہے۔ یعنی ہندوستان نے پلوامہ جیسے مزید حملے روکنے کے لیے غیر فوجی کارروائی کی۔
ہندوستان کی اس کارروائی پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا رد عمل بھی کافی سوچ سمجھ کر دیا ہوا تھا۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی فوج اور عام لوگوں کو کسی بھی ‘انہونی’ کے لیے تیار رہنے کو کہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس حملے کا جواب پاکستان اپنی مرضی کے مطابق وقت آنے پر دے گا۔
بہر حال، وکرم سود کہتے ہیں کہ ”پاکستانی وزیر اعظم کا بیان ان کا خود کا نہیں ہے۔ یہ بیان اس حکومت کا ہے جو درحقیقت پاکستان پر بادشاہت کرتا ہے۔” وکرم سود کے مطابق ہندوستان نے ہوائی حملہ کرنے سے پہلے سبھی متبادل پر سنجیدگی سے غور کیا ہوگا اور پاکستان کے ہر طرح کے رد عمل سے نمٹنے کی تیاری کی ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ”ایسے حالات میں اسی قسم کی تیاریاں کی جاتی ہیں۔” سود کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ”پاکستان اس طرح کے بیان دینے کے علاوہ مزید کچھ بول بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ کچھ کرتا تو اسے ملیٹنٹ تنظیموں کی حمایت کرنے والا تصور کیا جاتا۔”
Comments are closed.