حساس ریاست ہے فیصلے لینا صرف اور صرف ریاست کے منتخب عوامی نمائندے کا ہی حق
سرینگر: نیشنل کانفرنس نے کہا کہ ریاست کو ایک منصوبہ بند سازشوں کے تحت 09 اگست1953 سے ہی شروع ہوئی اور اسی دن سے ریاست کے آئینی خود مختاری کے خلاف سیاہ ترین سازشیں شروع کی گئی اور دہلی قیادت نے اپنے من پسند کٹہ پتلی حکومتوں کے ذریعے یہاں کے آئین کو مسخ اور ریاست کو دفعہ 370 اور 35 اے کے تحت جو آئینی اورجمہوری حقوق لوگوںکودے گئے تھے آہستہ آہستہ طاقت اور دھونس دباؤ کے تحت چھینتے گئے جس کی شروعات وطن عزیز کے سودا گھر اور ابن الوقت سیاست دانوں نے شیر کشمیر کے خلاف سازشیں کر کے خصوصا ً مرحوم بخشی صاحب اور خاص کر مرحوم صادق صاحب نے شروع کی اور ریاست کو مہاراجہ ہری سنگھ کے مشروط الحاق کے تحت جو مرعات اور آئینی حقوق ملے تھے آہستہ آہستہ محروم کرتے رہے اس کے ساتھ ساتھ ہی کانگریس کے وفادار اور چالیس سال تک کانگریس کا جھنڈا کندون پر اُٹھا کر بحثیت پردیش کانگریس صدر مفتی سعید نے ریاست کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت جی ایس ٹی لگا کر مالی خود مختاری سے محروم کر دیا اور موجودہ ریاست کے گورنر کی تعیناتی بھی انہیں قلم دوات والوں کی کارستانی ہے ۔سی این آئی کے مطابق ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سیکریٹری اور سابق وزیر ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے پارٹی کارکنوں اور عہدیداروں سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے ریاست کے موجودہ گونر شری ستپال ملک بلاجواز اور بلا اختیار گورنر کے حثیت سے ریاست کے آئین کی پامالی اور ریاست کے لوگوں کے مفادات اور احساسات کے ساتھ ساتھ ریاست کے لوگوں کے دلوں کو مجروح کرنے کے سلسلے میں اپنے آتے ہی کالے قوانین نافظ کرتارہا اور ریاست کے آئین کی توہین کرتے رہے اس طرح سے صاف ظاہر ہے کہ شری ستپال ایسے طریقہ کار سے گورنر ہاؤس کا تقدس کاپامال کرنے میں کوئی کثر باقی نہیں رکھتا ہے اور صاف ظاہر ہے کہ وہ ایسے طریقہ کار اپنانے سے آگ سے کھیل رہا ہے ۔ریاست ایک مسلم سٹیٹ ہے اور ہمیشہ یہاں ریاست کے تینوں خطوں کے لوگ بھائی چارہ کی مشعل کو فیروزہ رکھی ہے اور جس کی مثال 1947 کی ہے جب سارا ہندوستان فرقہ پرستی کی آگ میں جل رہا تھا ۔ خون کی ندیاں بہہ رہی تھی صرف اورصرف ریاست جموں وکشمیر میں بھائی چارہ ہندو مسلم سکھ اتحاد کی مشعل فیروزہ ہے جس کا اعتراف ملک کے بابو اور آزادی ہند کے بانی آنجہانی گاندھی جی نے کہا تھا کہ بھائی چارہ کی کرن صرف اور صرف کشمیر میں نظر آتی ہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا ستیہ پال جی کوایسے فیصلہ لینے سے گریز کرنا چاہئے جو اس کے حد اختیار میں نہیں ۔ ضلعوں ، تحصیلوں ، نیابتوں اور دیگر جگہوں کا تعن کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر اہم سیاسی فیصلے صرف اور صرف ریاست کے منتخب اسمبلی نمائندوں کے اختیار میں ہے مجھے معاف کرنا ہندوستان کے پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ صدر ہند اور وزیر اعظم ہند کو بھی ریاست کے آئینی اور جمہوری معاملات میںبھی ہمیشہ احتیاط برتاتے آئے ہیں کیونکہ ریات کو اپنا آئین اپنا جھنڈا اور جمہوری اصول ہے ۔ جس کی گارنٹی خود ہندوستان کے صف اول کے رہنماؤں نے تحریری طورپر ہمارے تحریک حریت کے صف اول رہنماؤں خصوصاًمحسن کشمیر شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کے ساتھ کئے ہیں جس کی تاریخ اور کلیدی فیصلے 1952 کی پوزیشن ۔طاقت کے بل بوتے پر کوئی زندہ قوم اور باغیرت سماج واقوام دب نہ سکتا ہے نہ ان کے حق کی آواز آج تک دب سکی ۔ ڈاکٹرکمال نے کہا کہ لداخ کو تیسراایڈمنسٹریٹیو کے قیام سے پہلے ستیہ پال ملک کو کشمیری رہنماؤں کے ساتھ ساتھ خصوصاً لداخ اور کرگل کے عوام کے نمائندوں سے مشورہ لینا تھا نہ کہ بحثیت ڈیکٹیٹر احکامات صادر ہندوستان کی جمہوریت کے منافی ہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ بد قستمی سے مرحوم مفتی محمد سعید اور اس کی بیٹی نے اپنے اقتدار کے خاطر جس قدر ضمیر فروشی کر کے ریاست میں ہندوستان کی خطر ناک مسلم دشمن فرقہ پرست جماعت کو (آر ایس ایس، بجرنگ دل، شیو سینہ ، راشتریہ سیوک سنگھ) کو ریاست میں داخل ہونے راہ ہموار کر دی اور آج ریاست کے لوگوں کو فرقہ پرستوں کے ہاتھوںسے ہمارے نوجوان کا قتل عام نسل کشی جاری ،تلاشیاں جاری ، پڑھے لکھے نوجوان بندوق اُٹھانے پر مجبور حالانکہ ان کشمیر دشمن قلم دوات والوں نے مذہب کے نام ووٹ حاصل کر کے ریاستی عوام کو قسم کھا کر کہا تھا کہ قلم دوات ہی بی جے پی والوںکو باہر دھکیل دینے میں صلاحت رکھتی ہے لیکن اصل میںیہ کشمیر دشمن جماعت مودی جی ، امیت شاہ جی اور راج ناتھ سنگھ کے احکامات پر عمل در آمد کرتے رہے اور آخرکاران کے ہاتھوں میں ہی ان کی جس قدر بے عزتی اور رسوائی ہوئی ۔ تاریک میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے ۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ گورنر صاحب کو ان تمام احکامات جو ریاستی آئین کے ساتھ میل نہیں کھاتی ہے فلفور واپس لینا چاہئے اور نئی عوامی حکومت تک ایسے فیصلے جاری کرنا کسی کو کوئی حق نہ ہے ۔ البتہ ہماری قیادتیں گورنرصاحب کو کشمیر وارد ہونے پر ہی اپیل کی تھی کہ گورنر صاحب کو ریاست کے موجودہ تباہ کن حالات ٹھیک کرنے ، تعمیر وترقی کے کاموں میں سرعت لانے کے ساتھ ساتھ خاص کر ریاست میں امن لوٹ آنے کی کوششوں میں ہمارا تعاون ساتھ رہے گا اور نوجوانوں اور دیگر طبقوں کے لوگوں کے ساتھ امن بات چیت کے ماحول سازگار بنانے کا مشورہ تھا لیکن اس کے برعکس گورنر صاحب آر ایس ایس احکامات پر ہی وہ ریاست میں حکمرانی کرتا ہے جو کسی بھی صورت میں کشمیری عوام کے مفاد میں نہیں۔ کشمیر ایک سیاسی مسئلہ اور اس کو سیاسی طور پر ہی حل کرنا ہے ۔ پاکستان کیساتھ ساتھ امن بات چیت شروع کرنا ہندوستان کے مفاد میںہے اور اس کے ساتھ ساتھ اسی مسئلے کے حل سے کشمیر میں امن لوٹ کی بھی امید کی ہے انہوں نے مانگ کی کہ ریاست میںفلفور اسمبلی الیکشن کے ساتھ ساتھ لوگ سبھا الیکشن بھی کرایا جائے تاکہ ریاست میں ایک پائیہ دار عوامی حکومت کا قیام عمل میں لائی جائے جو لوگوں کے موجودہ مشکل حالات کا حل کرسکتے ہیں اور لوگوں اس تباہ کن دھل دھل ، سیاسی انتشار ، اقتصادی بدحالی سے بھی نجات دلائیں۔
Comments are closed.