بیتے ہوئے سال میں کشمیریوںنے عجب تماشہ دیکھا ، نوجوانوں کی میتیں بھی الیکشن میں ووٹروں کی لمبی قطاریں بھی
سرینگر/30دسمبر: سال 2018گذشتہ تیس برسوں میں کشمیریوں کیلئے سخت مشکلات اور تکالیف کا سال رہا ، بیتے ہوئے سال میں ہڑتالوں کا سلسلہ ماہ جنوری سے ہی شروع ہوا اور دسمبر میں ختم ہوا ۔جبکہ اس برس کشمیریوںنے عام شہریوں کی ہلاکتیں دیکھیں جنگجوئوں کی درجنوںسینکڑوں لاشیں دیکھی، معصوم بچوں کی آنکھیں پلٹ سے روشی نے محروم ہوتی ہوئے دیکھیں اور بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات میں ووٹروں کی لمبی لمبی قطاریں بھی دیکھیں۔جبکہ موسم نے بھی کشمیریوں کی تکالیف میں اضافہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق سال 2018میں وادی کے حالات دگرگوں رہے سال کے پہلے ہی ماہ سے ہڑتالو ں ، ہلاکتوں اور احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ سال2018میں وادی میں ماہ اپریل اور اکتوبر میں شہری ہلاکتوں کے خلاف سب سے زیادہ8 آٹھ مرتبہ ہڑتال ہوئی،جبکہ ستمبر میں سب سے کم2روز تک کشمیر بند رہا۔ اعدادو شمارکے مطابق سال کے پہلے تین ماہ جنوری،فروری اور مارچ میں مجموعی طور پرمزاحمتی جماعتوں کی طرف سے9 بار ہڑتال کال دی گئی،اور ابتدائی3ماہ میں ہر ماہ میں تین تین بار ہڑتال ہوئی۔اپریل میں6جبکہ جولائی اور اگست میںپانچ پانچ بار ہڑتالوں کا اثر دیکھنے کو ملا۔ جون اور جولائی میں بھی چار چار بار ہڑتالیں ہوئیں،اگست میں 5 بار،ستمبر میں 2 بار ،اکتوبر میں 8 باراور نومبرو دسمبر میں تین تین بار ہڑتالیں ہوئیں۔کشمیر اکنامک الائنس نے ایک جبکہ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے باقی ہڑتالوں کی کال دی۔ سال کی پہلی ہڑتال13جنوری کوشہری ہلاکتوں کے خلاف ہوئی۔روایتی طور پر26جنوری کو مزاحمتی کال پر ہڑتال ہوئی،جبکہ وادی بھر میں بندشیں رہیں۔ جنوری میں تیسری ہڑتال28جنوری کو شوپیاں میں شہری ہلاکتوں کے خلاف کی گئی۔2فروری کو شوپیاں چلو کال کے نتیجے میں شہر خاص اور شوپیاں میں بندشیں عائد کی گئی۔جس کی وجہ سے وادی میں زندگی پٹری سے نیچے اتر گئی۔9فروری کو مرحوم افضل گورو کی برسی جبکہ11فروری کو مرحوم مقبول بٹ کی برسی پر ہڑتال ہوئی۔17فروری کو مزاحمتی جماعتوں کی کال پر اسیروں کو بیرون ملک منتقل کرنے اور حریت لیڈر محمد یوسف ندیم کی پراسرار ہلاکت کے خلاف ہڑتال رہی۔ 5مارچ کو بھی شہری ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال رہی،جبکہ7مارچ کو شوپیاں چلو کی کال دی گئی،جس کے پیش نظر مکمل ہڑتال رہی۔12مارچ کو جنوبی کشمیر میں سرکرہ کمانڈر عیسیٰ فاضلی سمیت3عساکر جاں بحق ہوئے،جبکہ وادی کے بیشتر حصوں میں اچانک ہڑتال ہوئی۔اپریل میں ہڑتالوں کے گراف میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔یکم اپریل کو شوپیاں کے درگڈاور کچھڈورہ میں الگ الگ خونین جھڑپوں میں13عسکریت پسند اور3فوجی اہلکار ہلاک جبکہ4شہری جان بحق ہوئے،جس کے نتیجے میں وادی کے بیشتر علاقوں میں ہڑتال ہوئی۔اس دوران مزاحمتی جماعتوں کی کال پر 2,3 اور4اپریل کو بھی مکمل ہڑتال کے مناظر دیکھنے کو ملے۔6اپریل کوکشمیر اکنامک الائنس کی طرف سے شہری ہلاکتوں کے خلاف دی گئی کال کے پیش نظر ہڑتال ہوئی۔12 اپریل کوشہری ہلاکتوں کے خلاف ہڑتال رہی جبہ13اپریل کو ہلاکتوں کے خلاف وسطی کشمیر چھوڑ کر پوری وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔امسال مئی میں سال کی سب سے زیادہ ہڑتالیں دیکھنے کو ملیں۔یکم مئی کو شہری ہلاکتوں کے خلاف وادی بھر میں ہڑتال ہوئی۔5مئی کو ہی سرینگر میں فورسز اور جنگجوئوں کے درمیان جھڑپ میں3جنگجو اور ایک شہری عادل احمد ساکن صفا کدل جاں بحق ہوئے،جس کے نتیجے میں مکمل ہڑتال ہوئی۔6مئی کو شوپیاں کے بڈی گام میں حزب کمانڈر صدام پڈر سمیت5 جنگجو جاں بحق ہوئے،اور وادی میں ہمہ گیر ہڑتال رہی۔7مئی کو شہری ہلاکتوں کیخلاف مزاحمتی لیڈروںکی کال پردوسرے روز بھی مکمل ہڑتال رہی جبکہ 8مئی کو وادی میں مکمل ہڑتال جاری رہی،جو9مئی کو بھی جاری رہی۔ سی این آئی کے مطابق 19مئی کو وزیر اعظم ہند نریندر مودی کے وادی دورہ پر، مزاحمتی جماعتوں کی طرف سے لالچوک چلو کی کال سے عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔21مئی کو شہدائے حول کی برسی پر عید گاہ چلو اور ہڑتال کی کال سے وادی میں عام زندگی کی رفتار تھم گئی۔جون میں انسانی خون گرنے کے خلاف ہڑتالوں کا ہتھیار ایک بار پھر استعمال میں لیا گیا۔2جون کو مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے عام شہریوں کی ہلاکت، جنوبی کشمیر میں فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں اورقبرستانوں کی بے حرمتی سمیت عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے خلاف مکمل کشمیر بند رہا۔21جون کوشہری ہلاکتوں اور سینئر صحافی سید شجاعت بخاری کے قتل کے خلاف وادی میں ہڑتال کی گئی جبکہ25جون کو شہری ہلاکتوں کے خلاف مزاحمتی جماعتوں کی کال پر ہڑتال ہوئی۔ذرائع کا کہنا ہے7جولائی کو کولگام کے ہائورہ مشی پورہ میں فو رسزکی فائرنگ سے کمسن طالبہ عندلیب جان، زاہد احمد لون ولد عبد مجید لون اور شاکر احمد جاں بحق ہوئے،جبکہ مزید5زخمی ہوئے،اس روز وادی میں ہڑتال رہی۔8 جولائی کو برہان وانی کی دوسری برسی پر وادی میں مکمل ہڑتال ہوئی،جبکہ11جولائی کو شہری ہلاکتوں کے خلاف وادی میں مکمل ہڑتال رہی۔13جولائی کو1931کے شہداء کے حوالے سے کال کے پیش نظر ہڑتال رہی۔اس طرح سال کے 336دنوں میں سے 54دن ہڑتال رہی یعنی مجموعی طور پر بارہ مہینوں میں سے 2مال ہڑتال کی نظر ہوئے ۔ اس دوران پورے سال میں وادی کے مختلف اضلاع میں جنگجوئوں اور فوج کے مابین ہوئی جھڑپوں میں سینکڑوں کی تعداد میں جنگجوجاں بحق ہوئے جن کی نعشوں کو کشمیریوں نے اپنے کاندھوں پر اُٹھاکر احتجاجی مظاہرے کرتے ہوئے دل کی بٹھاس نکالی ۔ جبکہ درجنوں عام شہری کو بھی لوگوںنے اپنے ہاتھوں سے مدفون کیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ درجنوں معصوم نوجوان اور بچے پلٹ گنوں سے نکلنے والے چھرے لگنے سے آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوئے ہیں ۔ کشمیریوں کا مزاج یہاں کے موسم کی طرح ہی کبھی نرم اور کبھی گرم ۔ ایک طرف وادی کے ہر ضلع میں ہلاکتوں کا سلسلہ سال بھر جاری رہا وہیں سال 2018میں ریاست میں ہوئے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں بھی دیکھنے کو ملی تاہم یہ رجحان جنوبی کشمیر اور سرینگر میں خاصا کم رہا جہاں انتخابات میں لوگوں کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی۔ ادھر سال میں جہاں سیاستی اتھل پتھل نے اور مخدو ش حالات نے لوگوں کو کافی دشواریوں سے دوچار کرایا وہیں پرموسم نے بھی اس برس تیس برس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے اہلیان وادی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے ۔ اس طرح سال جو بیت گیا اس نے کشمیریوں کو مشکلات کے سوا کچھ نہ دیا۔
Comments are closed.