خصوصی ویڈیوانٹرویو: کشمیر میں کشیدہ اور پُر تنائو صورتحال بھارت کی ہٹ دھرمی اور ضد کا نتیجہ: مفتی ناصرالاسلام
نہتے لوگوں کا قتل عام جمہوریت کے دعویداروں کیلئے سوالیہ نشان ،کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے /مفتی ناصرالاسلام کاخصوصی گفتگو
ناظم نذیر
سرینگر :کشمیر میں فورسز کی ظلم و زیادتی اور قتل وغارت گری کی وجہ سے موجودہ صورتحال سنگین رخ اختیار کرگئے ہیں ۔موجودہ کشیدہ اور پُرتنائو صورتحال کے حوالے سے جموں وکشمیرمسلم پرسنل لاء بورڈ کے نائب چیرمین اور نائب مفتی اعظم مفتی ناصرالااسلام نے تعمیل ارشاد کے ساتھ ایک مخصوص گفتگوکے دوران بتایا کہ 1947سے لیکر تاایں دم جموں وکشمیر کے عوام اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے اس دوران ڈیڑھ لاکھ سے زائد انسانی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور 36ہزار خواتین ایسی ہیں جو اپنے عزیز و اقارب کے انتظار میں آج بھی ان کی راہیں تکتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کا الحاق بھارت کے ساتھ نہ کبھی ہوا ہے اور نہ ہی آئندہ ممکن ہے کیونکہ کشمیر کی ایک اپنی تاریخ ہے اور یہ منفرد اوریکتا خطہ ارض ہے جس پر بھارت نے ناجائز قبضہ کیا ہے جس کیلئے نوے میں یہاں کا عوام بندوق کی جانب گامزن ہوا اور عسکریت کا آغاز ہواحالانکہ بندوق کشمیریوں کا مزاج نہیں ہے لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی اس کا بنیادی وجہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے حکمرانوں نے تسلیم کیا ہے کہ کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دیا جائے لیکن اب تک بھارت نے اس کی طرف توجہ مبذول نہیں کی جس کے نتیجے میں حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیرکے حل کے تئیں اقوام متحدہ میں باضابطہ طور قرادادیں درج ہیں لیکن اقوام متحدہ بھی اس میں کوئی رول ادا نہیں کررہا ہے ۔ان سے پوچھے گئے سوال عسکریت کو مارے جانے کے بعد بھی عسکریت میں آئے روز اضافہ کیوں ہورہا ہے ؟ کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ بھارت کے حکمرانوں اور فورسز کی ظلم وتشدد کا ہی نتیجہ ہے جب کسی پر بھی ظلم حد سے بڑھ جاتا ہے تو وہ جنگ پر اتر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نوجوان عسکریت پسندوں کے صفوں میں شامل ہورہے ہیں جو بھارت کیلئے ایک چیلنج ہے اور یہ سلسلہ تب تک بند نہیں ہوگا جب تک نہ بھارت مسئلہ کشمیر کوحل کرنے اور ظلم تشدد کو ختم کرنے کاتہیہ کرلے گا ۔انہوں نے کہا کہ کنن پوشپورہ جیسے سینکڑوں واقعات ایسے سامنے آئے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہیں ۔انہوں نے کہا کہ فرضی جھڑپوں میں معصوم لوگوں کو قتل کیا جارہا ہے یا معصوموں کا قتل عام کرنے کے بعد انکوئری کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے اوراب تک وہ سراب ہی ثابت ہوئے ۔افسپا کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں موصوف نے کہا کہ اس ایکٹ سے فورسز کو کشمیریوں کو مارنے کی سند حاصل ہوئی۔انہوں نے کہا کہ لوگوں کو مارنے کے ساتھ ساتھ یہاں خواتین کے ساتھ بھی زیادتی ہورہی ہے جس کیلئے میجر گگوئی ایک واضح مثال ہے ۔انہوں نے کہا کہ فورسز کی جانب سے ہورہی ظلم و تشدد سے یہاں کا ہر کوئی باشند غیر محفوظ ہے ۔انہوں نے کہا کہ مین اسٹریم جماعتوں نے کشمیر کی انفرادیت کو زک پہنچانے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی اور کہا کہ اب گورنر راج میں نہتے لوگوں پر ظلم وتشد کرنا اب معمول بن گیا ہے اور گورنر ستیہ پال کو یہاں ایک قصائی کے طور پر تعینات کیا گیا ہے ۔انہوں نے حال ہی میں پلوامہ کے قتل عام کے بارے میں کہا کہ فورسز نہتے اور معصوم لوگوں پر گولیاں چلاکر ان کے جسم کی چھلنی کرتے ہیں اور ہزاروں سپاہی دو تین عسکریت پسند وں کو مار گرانے کیلئے بے تحاشہ طاقت کا استعمال کرتے ہیں یہاں تک نہتے لوگوں کو بھی بخشا نہیں جاتا ہے اور اس کے باوجود بھی بھارت جمہوریت کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کررہا ہے جو حقیقت سے بالکل بعید ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی سے ہی خطہ میں حالات نے سنگین رخ اختیار کیا ہے اورکہا کہ اب تک چار نسلیں یہ ظلم و ستم سہتی آئی ہیں ۔مین اسٹریم لیڈران کے طریقہ کار کے حوالے سے کئے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے مفتی ناصرالاسلام نے کہا کہ ان کا ضمیر ابھی بھی بیدار نہیں ہورہا ہے اور یہ کسی المیہ سے کم نہیں ہے کہ کشمیری نہتے لوگوں کو بے دردی سے مارا جارہا ہے لیکن وہ پھر بھی بھارت کے حکمرانوں کے ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اس قتل وغارت گری پر تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر ان میں ذرابھی غیرت ہوتی تو شاید وہ حقیر مفادات کو ترک کرکے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے جاری جدوجہد میں جڑے ہوتے ۔انہوں نے متحدہ حریت کی جانب سے دئے جارہے پروگراموں اور ان کے طریقہ کار کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جوابات میں کہا کہ ہڑتال کرنا ہمارا احتجاج ہوتا ہے لیکن ہڑتال سے ہی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور کہا کہ اگر چہ ہڑتالوں سے یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کیا جارہا ہے لیکن اسی پر تکیہ رکھنا بھی کافی نہیں ہے بلکہ تمام مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سماجی ،مذہبی اور سیاسی قائدین و ائمہ مساجد ،خطیب حضرات اور ٹریڈرس کیساتھ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیکر موجودہ صورتحال کی طرف توجہ مبذول کی جائے ۔تاکہ آئے روز جومعصوموں کی جانیںزیاں ہورہی ہیںبند ہوجائے ۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل مذاکرات میں ہی مضمر ہے اور تین فریق بھارت ،پاکستان اور کشمیر ایک ہی میز پر آکر اس مسئلہ کا پائیدار حل تلاش کریں ۔انہوں نے پاکستان کی حمایت کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان روز اول سے کشمیریوں کی اخلاقی ،سیاسی اور سماجی مدد جاری رکھا ہواہے ۔اور کہا کہ پاکستان نے کشمیر کی وجہ سے ہی بنگلہ دیش کو کھودیا اور ہمیشہ کشمیریوں کے حوالے سے فکر مند ہے ۔انہوں نے کہا کہ اب ظلم وبربریت انتہا کو چھورہی ہے اور اس کو بند کرکے قیام امن کیلئے راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع کی جائیں ۔انہوں نے کہا کہ میں نائب مفتی اعظم کی حیثیت سے اقوام عالم اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ کشمیر کے موجودہ صورتحال پر توجہ مرکوز کرکے اپنا کلیدی رول ادا کریں ۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل سہ فریقی مذاکرات اور اقوام متحدہ کی قرارداوں کے ذریعے کیا جائے تاکہ قیام امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔انہوں نے تمام دینی ،سماجی ،سیاسی لیڈران کے علاوہ لوگوں سے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ وہ رواں جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے متحد ہوجائیں اور ایک آواز بن کر آگے بڑھیں۔اتحاد میں ہی طاقت اور مسائل کا حل ممکن ہے
Comments are closed.