ہزاروں کنال زرعی زمین ان عمارتوں کی زد میں
سرینگر/5دسمبر/سی این ایس/ شہر سرینگر اور وادی کے مختلف علاقوں میں کثیر منزلہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے کا رجحان جس بے ہنگم طریقے سے جاری ہے اُس سے آنے والے ایام میں ٹریفک کی نقل وحمل میں مزید رکاوٹیں پیدا ہونگی جبکہ اس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ بھی ہے کہ وادی کے دوسرے علاقوں سے ہزاروں کنال زرعی زمین ان عمارتوں کی زد میں آگئی ہیں کیونکہ ان علاقوں میں جہاں بھی کہیں صنعتی یونٹ قائم تھے ان کو مسمار کر نے کے بعد ان پر تعمیرات کا سلسلہ بلا روک ٹوک جاری ہے۔ سی این ایس کے مطابق شہر سرینگر میں کثیر منزلہ کاروباری عمارتیں تعمیر کرنے کا رجحان جس بے ہنگم طریقے پر جاری ہے اُس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آنے والے ایام میں جہاں ٹریفک کی آمد ورفت میں مزید رکاوٹیں پیدا ہوں گی وہیں سرینگر کوفواروں اور کشادہ سڑکوں کی تعمیر سے جاذب نظر بنانے کی ساری کوششیں رائیگاں اور بے ثمر ثابت ہوں گی کیونکہ ان عمارتوں کی تعمیر کے دودان پہلی کوشش کے تحت فٹ پاتھوں پر ناجائز قبضہ کیا جارہا ہے اور پارکنگ کے لئے جگہ محفوظ رکھنا نقصان دہ اور غیر دانشمندانہ اقدام قرار دیا جارہا ہے سرینگر میں واحد بائی پاس روڑ پر ان دنوں بے شمار کثیر منزلہ کاروباری عمارتوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے جو کوئی بھی شخص بائی پاس کے شاہراہ کے دائیں بائیں تھوڑییا بہت زیادہ زمین کا مالک ہے وہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے کی دوڑ میں ایک دوسرے سے سبقت لینے کی کوششوں میں مصروف ہے اور اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ایسی عمارتوں کی تعمیر کے بعد ان کے مالک نفع نقصان کی فکر سے آزاد اور بے نیاز ہوکر ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ایک بہت بڑی رقم جو کہ لاکھوں میں بھی ہوسکتی ہے اپنے کھاتے میں ڈالنے میں کامیاب ہوتیہے ۔ شہر میں ٹریفک نظام کی ابتر صورتحال کی ایک بڑی وجہ کثیر منزلہ عمارتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے ۔ سی این ایس کے مطابق کرن نگر ، بابہ ڈیمب روڑ ، راجباغ ، جواہر نگر ، حیدر پورہ ، صورہ ، غرض اہم شاہراہوں اور بازاروں میں کثری منزلہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے کا سلسلہ تشویش ناک حد تکجاری ہے اور سرینگر میونسپل کارپوریشن یک جنبش قلم سے ہر خواہش مند شخص کو کہیں بھی اور کسی بھی جگہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے کی اجازت دے رہے ہیں کیونکہ یہ حضرات نہ صرف کافی اثر ورسوخ کے مالک ہوتے ہیں بلکہ متعلقہ انسدان کو نقد اور تحائف دے کر ان کی تحریری منظوری حاصل کرنے کے فن سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ گو کہ ایک طرف شہر سرینگر کے مختلف چوراہوں اور اہم مقامات پر فواروں کے تعمیر کے علاوہ سڑکوں کی کشادگی کا کام جاری ہے تاہم دوسری طرف مصروف شاہراہوں کے دونوں طرف کثیر منزلہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کرنے سے شہر سرینگر کو جازب نظر بنانے کی کوشش ایک ایسا خواب ہے جو کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا ۔ سی این ایس کو ئی ذی شعور شہریوں نے حیرت اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وادی کشمیر میں صنعتی یونٹ قائم کرنے کا رجحان ختم ہوگیا ہے بلکہ جہاں کہیں بھی کوئی صنعتی ادارہ قائم تھا جہاں کافی تعداد میں مقامی باشندے روزگار کمانے میں کامیاب ہوجاتے تھے اب ان صنعتی یونٹوں کو مسمار کر کے وہاں کثیر منزلہ شاپنگ کمپلیکس تعمیر کئے گئے ہیں یا پھر ان کی تعمیر کا سلسلہ جاری ہے ۔ سرینگر سے مختلف اضلاع تک جانے والی شاہراؤں کے دونوں کناروں پر بھی لاتعداد شاپنگ کمپلیکس کھڑا کئے گئے ہیں ۔ اس طرح ہزاروں کنال زرعی زمین ان کثیر منزلہ عمارتوں کی زد میں آگئی ہے کیونکہ اب ایسی عمارتوں کی تعمیر کو انتہائی منافع بخش قرار دیا جارہا ہے وہ زمانہ اب قصہ پارینہ بنتا جارہا ہے جب کشمیر میں سبزہ زاروں اور لہلاتے کھیتوں کی بہار ہوا کرتی تھی جب سینکڑوں کنال زمین پر پھیلے ہوئے سبزیوں اور میوہ باغات کی خوشبو سے وادی کشمیر مدطر تھی ۔ آج یہ زمین کثیر منزلہ عمارتوں کے بوجھ تلے د ب رہی ہے جس سے ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہوگیا ہے ۔ سی این ایس کے مطابق اکثر جگہوں پر پیدل عبور ومرور بھی مشکل بنتا جارہا ہے رہی سہی کسر چھاپڑی فروش اور عارضی دکانیں سجانے والے پورا کرتے ہیں جو متعلقہ پویس اہلکاروں کو روزانہ ایک مخصوص رقم ادا کر کے ان سے سڑکوں پر ناجائز قبضہ کیلئے غیر تحریری اجازت حاصل کرتے ہیں ۔ اس ساری صورتحال کا ایک حیرت اور تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ حکام اس سلسلے میں کوئی لب کشائی نہیں کرتے ۔ وادی کشمیر بالخصوص شہر سرینگر میں لاتعداد کژیر منزلہ عمارتوں کا بڑھتا ہوا سلسلہ یقیناًسرکار کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ اس معاملے میں نرم پالیسی اختیار کر کے گویا اس کی حوصلہ افزائی کررہے یں ۔ اگر اس تشویش ناک بدعت پر فوری روک نہ لگائی گئی تو صورتحال مزید ابتر ہوجائے گی جس کا خدشہ کشمیر کا ہر باشعور ، باضمیر او دور اندیش شہری ظاہر کررہا ہے ۔
Comments are closed.