رواں برس مختلف جگہوں پر خونین تصادم کی جگہوں پر 50عام شہری ازجان

گذشتہ گیارہ مہینوں کے دوران محض ضلع شوپیاں میں اب تک 44جنگجو جاں بحق

سرینگر/27نومبر/سی این آئی/ جنوبی کشمیرمیں جنگجو مخالف کارروائیوں میں رواں برس اب تک 44جنگجو صرف ضلع شوپیاں میں جاں بحق ہوئے ہیں ۔ جبکہ ان میں سے 42مقامی جنگجو اور دو غیر ملکی جنگجو تھے۔ اس دوران رواں برس کے گیارہ مہینوں میں 50عام شہری بھی مختلف جگہوں پرازجان ہوئے ہیں۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جنوبی کشمیرمیں آئے روز جنگجو مخالف آپریشنوں میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت میں محض ضلع شوپیاں میں رواں برس 44جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں۔ 2016میں حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان لدین وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد جنوبی کشمیر باالخصوص ضلع شوپیاں پر مختلف حفاظتی ایجنسیوں کی نظریں گڑھی ہوئی ہیں اور فوج ، ایس او جی اور دیگر فورسز ایجنسیاں اپنی تمام تر وسائل بروئے کار لاکر جنگجو مخالف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس سے پہلے شمالی کشمیر کا قصبہ سوپور کے علاوہ جنوبی کشمیر کے ترال اور پلوامہ قصبہ جات بھی سیکورٹی فورسز کے راڈار پر تھے تاہم ان قصبہ جات میں اب جنگجوئوں کی سرگرمیوں کی کمی کے سبب وہاں جنگجوئوں اور فورسز کے مابین جھڑپیں بہت کم ہورہی ہے ۔ ضلع شوپیاں میں رواں برس میں جارے جانے والے جنگجوئوں کا تعلق حزب المجاہدین ، لشکر طیبہ اور جیش محمدیہ جیسی تنظیموں سے تھا۔ رواں برس کے یکم اپرین کو ضلع شوپیاں میں 12عسکری پسند اور چار عام شہری ایک خونین جھڑپ میں جاں بحق ہوئے تھے ۔ برہان وانی کے جاں بحق ہونے کے بعد 2017کو ضلع شوپیاں میں فوج اور فورسز کی بھارتی نفری تعینات کی گئی جنہوںنے کئی جگہوں پر نئے فوجی کیمپ قائم کئے ۔ جن میں ناگبل ، منتری بُگ، پہنو، زینہ پورہ ، ناگشرن اور چلی پورہ گائوں جات قابل ذکر ہیں جہاں نئے سرے سے فوجی کیمپ کا قیام عمل میں لیا گیا ہے ۔ سی این آئی کے مطابق جنگجو مخالف آپریشن کے دوران فورسز اور سیولین کے درمیان ہونے والی جھڑپوں اور فوج و عسکریت پسندوں کے مابین تصادم میں وادی کے مختلف جگہوں پر دوران آپریشن 50عام شہری بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ اس دوران فورسز ایجنسیوں نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ تین برسوں کے بنسبت رواں برس سیولین ہلاکتوں میں کافی کمی آئی ہے ۔ مذکورہ عام شہریوں کی تعداد میں سوموار کے روز ضلع شوپیاں میں ایک کم عمر لڑکے کی ہلاکت بھی شامل ہے۔واضح رہے کہ جنوبی کشمیر کے ساتھ ساتھ وادی کے دیگر اضلاع میں بھی جہاں پر بھی فوج اور جنگجوئوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے یا فوج عسکریت پسندوں کو ڈھونڈ نکالنے کیلئے تلاشی مہم شروع کرتے ہیں انہیں مقامی نوجوانوں کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور خونین تصادم آرائیوں کے دوران مقامی نوجوانوں اور فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں فورسز کی گولیوں کا شکار عام شہری بھی بن جاتے ہیں ۔اس صورتحال میں گذشتہ تین برسوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ۔ خاص کر 2016کے بعد جب برہان وانی اپنے دو ساتھیوں سمیت جاں بحق ہوئے اور اس کے بعد وادی کے اطراف واکناف میں فوج ، پولیس اور فورسز اور نوجوانوں کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ اور مشتعل نوجوانوں نے کئی جگہوں پر فوجی کیمپوں کے نزدیک شدید احتجاج بھی کیا جس پر اُس وقت کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بتایا تھا کہ نوجوانوں اور بچوں کو فوجی کیمپوں پر کیا ٹافی یا برفی لینے کیلئے جانا تھا۔

Comments are closed.