ہنگامہ آرائی کے بیچ جموں و کشمیر اسمبلی نے خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے قرارداد منظور کی
سری نگر6نومبر
بی جے پی کے زبردست ہنگامے اور احتجاج کے بیچ جموں و کشمیر اسمبلی نے بدھ کو خصوصی حیثیت کی بحالی کے لئے قرارداد صوتی ووٹ سے منظور کی۔قرارداد میں حکومت ہند سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوام کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی اور آئینی طریقہ کار پر کام کرنے کے لیے بات چیت شروع کرے۔
بدھ کی صبح جوں ہی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تو نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری نے خصوصی حیثیت کی بحالی کی قرار داد پیش کی جس کی وزیر تعلیم سکینہ ایتو نے حمایت کی۔قرار داد کا مسودہ بڑی چالاکی سے تیار کیا گیا تھا اورا س میں دفعہ 370یا 5اگست 2019کا ذکر نہیں کیا گیا ۔
قرارداد میں کہا گیا کہ یہ قانون ساز اسمبلی خصوصی حیثیت اور آئینی ضمانتوں کی اہمیت کی توثیق کرتی ہے، جو جموں و کشمیر کے لوگوں کی شناخت، ثقافت اور حقوق کا تحفظ اور ان کی یکطرفہ برطرفی پر تشویش کا اظہار کرتی ہے۔اس میں مزید کہا گیا کہ یہ اسمبلی حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے منتخب نمائندوں کے ساتھ خصوصی حیثیت کی بحالی کے لیے بات چیت کا سلسلہ شروع کرے۔
قرارداد کے متن میں مزید لکھا گیا ہے کہ "یہ اسمبلی اس بات پر زور دیتی ہے کہ بحالی کے لیے کسی بھی عمل کو قومی اتحاد اور جموں و کشمیر کے لوگوں کی جائز امنگوں کا تحفظ کرنا چاہیے۔”جب یہ قرارداد پیش کی گئی تو بی جے پی ممبران اسمبلی نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا۔
بھاجپا ممبران نے ایوان کے وسط میں آکر سپیکر پر جانبدارانہ رویہ اپنانے کا الزام لگاتے ہوئے قرارداد واپس لینے کا مطالبہ کیا۔بی جے پی کی جانب سے سپیکر کے خلاف نعرے بازی کرنے کے ساتھ ہی نیشنل کانفرنس کے اراکین اسمبلی بھی اپنی نشستوں سے کھڑے ہوئے اور قرارداد کے حق میں نعرے لگائے۔اس دوران نیشنل کانفرنس اور بی جے پی ممبران کے درمیان تلخ کلامی کے مناظر بھی دیکھنے کو ملے۔
پی ڈی پی کے ایم ایل ایز ، پیپلز کانفرنس چیرمین سجاد لون ، عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی معراج ملک اور دیگر آزاد اراکین نے بھی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بی جے پی کے خلاف نعرے لگائے۔
ہنگامہ آرائی کے دوران کانگریس کے چھ ممبران اسمبلی نے خاموشی اختیار کی۔سپیکر عبدالرحیم راتھر نے بی جے پی ارکان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ قرار داد پر ووٹنگ کرنے کے لئے بھی تیار ہے لیکن بی جے پی کی جانب سے شور شرابہ اور ہنگامہ آرائی کا سلسلہ جاری رہا۔بی جے پی کی جانب سے احتجاج کے باوجود بھی صوتی ووٹ کے ذریعے اس اہم قرار داد کو منظور کیا گیا۔
قرار داد منظور ہونے کے ساتھ ہی بی جے پی کے سبھی ممبران اسمبلی ایوان کے وسط میں آئے اور جے شری رام کے نعرے لگائے ۔ اس دوران نیشنل کانفرنس اور بی جے پی ممبران کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔
بی جے پی ایم ایل ایز کی جانب سے احتجاج جاری رکھنے کے پیش نظر سپیکر نے ایوان کی کارروائی دس منٹ تک ملتوی کی ۔جب ایوان کی کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو بی جے پی نے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھااور نعرے لگائے پاکستانی ایجنڈا قبول نہیں کیا جائے گا۔بی جے پی ایم ایل اے اور قائد حزب اختلاف سنیل شرما نے اسپیکر پر الزام لگایا کہ ہمیں مصدقہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ سپیکر نے نیشنل کانفرنس ممبران اسمبلی کے ساتھ دیر شام میٹنگ کے دوران قرارداد کا مسودہ تیار کیا۔
سپیکر نے بی جے پی ممبران اسمبلی پر زور دیا کہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں ایوان میں اس پر بحث کرنے کے لئے تیار ہے تاہم احتجاج جاری رہنے کے بیچ سپیکر نے کہاکہ بہت ہوگیا آپ کو من مانی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ہنگامہ آرائی کے درمیان سپیکر نے کارروائی مزید ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کرنے کا فیصلہ لیا۔ جب ایوان کا اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو بی جے پی نے احتجاج جاری رکھااور سپیکر کے خلاف نعرے بازی کی ۔
سپیکر نے اس کے جواب میں کہاکہ اگر بی جے پی ممبران کو مجھ پر اعتماد نہیں تو تحریک عدم اعتماد لائیں اور ایوان کی کارروائی جمعرات تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا۔پانچ اگست 2019کو جموں وکشمیر میں دفعہ 370کو منسوخ کرکے دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کیا گیا۔خصوصی حیثیت کی بحالی کی خاطر جموں وکشمیر کی سیاسی پارٹیوں نے سپریم کورٹ آف انڈیا میں عرضیاں دائر کیں تاہم عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سال دسمبر میں ان عرضیوں کو مسترد کرکے پارلیمنٹ کا فیصلہ برقرار رکھا۔
اسمبلی میں دفعہ 370کی بحالی کی قرار داد پاس ہونے کے بعد جموں وکشمیر میں سیاسی طوفان آگیا ہے ۔ بھاجپا کو چھوڑ کر سبھی سیاسی پارٹیوں نے نیشنل کانفرنس کے اس فیصلے کی حمایت کی ہے۔
Comments are closed.