گھریلو طریقے سے تیار کی جانے والی غذائیں قابل حقارت کیوں۔۔۔؟

آلودہ کھانا کھانے سے دنیا بھر میں ہر سال 4.2 ملین لوگوں کی ہوتی ہے موت

سرینگر/26نومبر: وادی میں مقامی طور تیار کئے جانے والے کئی کھانے کی چیزیں اب محض ماضی کی یادیں بن کے رہ گئیں ہیں اور گھریلوں طریقوں سے تیار کی جانی والی غذائیوں کی جگہ اب ’’فاسٹ فوڈ‘‘نے لے لی ہے جس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریوں نے کشمیریوں کو جکڑ رکھا ہے جبکہ دنیا بھر میں ناقص غذائیوں کے استعمال سے ہر برس 4.2ملین لوگ موت کے شکار بن جاتے ہیں جن میں سے ایک تہائی پانچ برس سے کم عمر کے بچوں کی ہوتی ہے۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق وادی میں مقامی طور تیار کئے جانے والی کھانے کی چیزیں جن میں ’’بسکرق‘‘’’کھانڈ گاجر‘‘شنگرم،’’مشری مکائی‘‘سفید لایہ‘‘’کریہ موٹھ‘’بتہ پٹی‘گنہار، اور سب سے زیادہ معروف اور پسندیدہ ’’روٹھ‘‘و دیگر چیزیں شامل تھیں جن کو لوگ بڑے مزے سے کھاتے تھے اور ایک دوسرے کو تحفے میں بھی دیتے تھے ۔ گھریلو طریقے سے بنائی جانے والی ان کھانے کی چیزوں کو صاف و شفاف طریقے سے تیار کیا جاتا تھا اور اس کاروبار سے یہاں ہزاروں افراد منسلک تھے جو اس کو تیار کرتے اور بازاروں میں فروخت کیا کرتے تھے ۔ تاہم وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ گھریلوں طریقوں سے تیار کئے جانے والی ان چیزوں کی جگہ انتہائی اعلیٰ قسم کی تکنیک سے تیار کی جانے والی چیزوں نے لے لی ہے۔ جن کے استعمال میں نہ جانے کیا کیا کمیکل استعمال کئے جارہے ہیں جس انسانی صحت کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔ جدید طریقوں سے تیار کیئے جانے والی مٹھائیوں اور دیگر غذائیوں کو زیادہ وقت تک محفوظ رکھنے کیلئے کئی طرح کے میدنیات کو استعمال میں لایا جاتا ہے جس سے کھانے کی چیزیں نقصان دہ ثابت ہوجاتی ہے ۔ حال ہی میں ملک بھر میں میگی، و دیگر چیزوں پر پابندی کی وجہ بھی یہی تھی کہ ان کے تیار کرنے میں کئی زہریلے میدنیات کو استعمال میں لایا جاتا ہے جس سے فوڈ پوزننگ کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ دنیا بھر میں آلودہ کھانے کی وجہ سے ہر سال تقریبا 4.2 لاکھ لوگوں کی موت ہو جاتی ہے. یہ اعداد و شمار کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ ناقص کھانا کھانے کی وجہ سے مرنے والوں میں تقریبا ایک تہائی پانچ سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں۔ کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے اثرات پر اس طرح کی پہلی رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں تقریبا 60 کروڑ لوگ یعنی فی دس شخص میں ایک آلودہ کھانا کھانے کی وجہ سے ہر سال بیمار پڑتا ہے. ڈبلیو ایچ او نے آج جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں فوڈ پویزننگ بیماری کے تقریبا 60 کروڑ مقدمات میں سے 40 فیصد کیس پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں دیکھے جاتے ہیں جبکہ ہر سال 4.2 ملین مرنے والوں میں ان کی تعداد 30 فیصد ہوتی ہے جبکہ دنیا کی آبادی میں صرف نو فیصد بچے پانچ سال سے کم عمر کے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مختلف طرح کے بیکٹیریا، وائرس، پرجیویوں، زہریلا پداتھرے اور کیمیکلز کی وجہ سے کھانے سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر مشتمل ہے اور اس میں ہر سال تقریبا پانچ لاکھ لوگوں کو اپنی جان گنوانی پڑتی ہے. ڈبلیو ایچ او کے کھانے کی حفاظت محکمہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر جا میاگی شیما نے پریس کانفرنس میں کہا ” ہم لوگ ایک پوشیدہ دشمن سے مقابلہ کرتے رہے ہیں. ” ڈاکٹر میاگیشیما نے کہا ” ہم لوگ جو اعداد و شمار دے رہے ہیں وہ بہت ہی مختصر اندازہ ہے، ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ حقیقی اعداد و شمار اس سے بڑا ہے. ” اقوام متحدہ کے اس ادارہ صحت کے مطابق تقریبا 150 سائنسدانوں نے سال 2010 تک آٹھ سال کی تحقیق کیا لیکن سال 2010 کے بعد کے منظر نامے میں بہت قابل ذکر تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی کھانے پینے کی چیزوں کو جدید سائنسی دور نے بھی انسانی صحت کیلئے بہتر قراردیا ہے تاہم اب وادی کشمیر میں جدیدیت نے ہمارکے کلچر کے ساتھ ساتھ ہمارے کھانے پینے پر بھی منفی اثرات مرتب کئے ہیں ۔ ’’سفید لائیہ‘‘جو مکی کو نمک میں بھون کر تیار کی جاتی ہے کو آج کل ’کورن فلیک‘کا نام دیکر استعمال کیا جاتا ہے اور اس کارن فلیک کو بڑے چاؤ سے لوگ کھاتے ہیں جبکہ ’’گھریلوں اور سیدھے طریقے سے تیار کی جانے والی ’سفید لائیہ ‘کو حقارت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے ۔ اس کے علاوہ آج کشمیر میں گھریلو طریقے سے تیار کیا جانے والا ’روٹھ‘جو نانوائی بنایا کرتے تھے اور کسی بھی خوشی کے موقع پر لوگ اسکو ایک دوسرے کو تحفہ میں دیتے تھے۔اب اسکی جگہ ’پیسٹری اور کنفکشنری نے لی ہے جو انتہائی غلیظ اور مضر صحت ہے ۔

Comments are closed.